پاکستان بھر میں سبزیوں پھلوں اور دیگر اجناس کی کمی پورا کرنے کے لیے پاکستان کے حکمران ایک ہی حکم دے کر پورا کر سکتے ہیں پاکستان کی جن زمینوں پر نہ تو فصل کاشت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی کاشتکار کے ملکیت ہے وہ موٹروے ہو ہائی ویز ہو یا کہ چھوٹی سی چھوٹی سڑک جس کے دائیں بائیں لاکھوں ایکڑ زمین خالی پڑی ہے وہ بے زمین ہاریوں کاشت کاروں کو فری کاشت کرنے کے لیے دے دی جائے تو چھ ماہ کے بعد پاکستان کی معیشت کا جام پہیہ رواں دواں ہو گا یہ کام مملکت خداداد پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ پختون خواہ علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ بلوچستان بگٹی اپنے اپنے صوبوں کے ان اعلیٰ حکام کو احکامات جاری کر یں کہ ان زمینوں کو ہاریوں اور بیروزگار کاشتکاروں میں تقسیم کر کے ان کی معاونت کریں میں دیکھتا ہوں کہ پاکستان میں کس طرح پھلوں سبزیوں گندم اور دیگر جو زمین سے نکل کر انسان کی خوراک کا حصہ بنتی ہیں کمی رہ جاتی ہے اگر میری اس تجویز پر عمل ہو جائے تو پاکستان بھر میں جب پھلوں کے درخت سبزیاں گندم جوار اور دیگر کاشتکاری ہو گئی اس کو کاشت کرنے کے لیے حکومت کی ایک دمڑی بھی نہیں لگے گی بس ایک ہی حکم کہ جو شخص جس جگہ کی زمین کو کاشت کرنا چاہتا ہے وہ کریں اور جو شخص بھی ان علاقوں میں سے پھل توڑ کر کھانا چاہے یا سبزی بھی توڑ کر اپنے گھر لے جانا چاہے یا دیگر ایشیا اپنی ضرورت کے مطابق لینا چاہے تو اس کو روکنے والا کوئی نہیں ہوگا اس سے غربت کا خاتمہ ہوگا اور سبزیوں پھلوں اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں زبردست کمی آئے گی لیکن یہ کام ہے صرف ملک اور پاکستان کے 25 کروڑ عوام پہ لوگوں سے محبت کرنے کا پاکستان میں ہزاروں میل ریل کی پٹڑیاں اپ جانتے ہیں درختوں کے بغیر ویران پڑی ہیں اور ریگستان کا نقشہ پیش کرتی ہیں وہاں پر جب وہ کسان وہی لوگ ہیں جن کے پاس نہ پہلے زمین ہے اور نہ ہی وہ کسی اور جگہ کام کر سکتے ہیں حکومت جب ان کو یہ سہولت میسر کرے گی اور وہ 10 ایکڑ سے زیادہ نہ ہو وہاں پر یہ سبزیاں پھل پھول اور دیگر اشیاء کاشت کر سکتا ہے ان شاء اللہ تعالی ہم کامیاب ہونگے پشاور سے کراچی تک جو ریلوے پٹڑی 1600 میل سے زیادہ لمبی ہے دونوں اطراف لاکھوں ایکڑ جگہ خالی پڑی ہے میں تو سمجھتا ہوں جس پر کاشت کر کے اگر وہ نہیں تو حکومت کھربوں روپے کا زرمبادلہ اس جگہ لگائی جانے والی سبزیوں پھلوں اور دیگر کاشت کردہ اشیا سے کما سکتی ہے اور لاکھوں بے روز گر نوجوانوں کو روزگار فراہم کر سکتی ہے اس طرح موٹروے جو کہ پشاور سے لے کر کراچی تک قائم ہے وہ کاشت کرنے والوں کو ڈھونڈ رہی ہے کہ کوئی آئے مجھ پر ہل چلائے اور میں پھر ان کے لیے سونا اگل سکوں یہ کرے تو کون کرے اس لیے میں نے آج اپنی ٰآواز اٹھائی ہے اور اپنے کالم میں حکومت پاکستان سے گزارش کی ہے کہ وہ ان میری معروضات پر عمل کریں تو دیکھتا ہوں اس پر حکمرانوں کی کون مخالفت کرے گا یہ نیک اور اچھا کام ہے اس کو سیاست کی نظر نہ ہونے دیں اس کو بندر پاٹ نہ بنائیں جو بھی بندہ ان زمینوں کو کاشت کرنے کے لیے حکومت سے یا حکومت کے جو محکمے ہیں ان سے رابطہ کریں وہ اس کو فی الفور یہاں پر کاشت کرنے کے احکام جاری کریں اور کاشت کاری کرنے والوں سے کسی قسم کا کوئی پیسہ یا بھتہ وصول نہ کیا جائے تو پھر دیکھیے پاکستان میں ہر طرف پیسے کی ریل پیل ہو گی جب اچھی کاشت ہو گی اور ان لوگوں کو جو کہ بے روزگار ہیں اس کے ذریعے پیسے ملیں گے تو ان کے رنگ بھی نکل آئیں گے اور وہ حکمرانوں کے لیے بددعا کی بجائے دعا کریں گے بجلی جتنی مرضی مہنگی ہو جائے ضروری اشیاء جتنی مرضی مہنگی ہو جائیں جب ہر بندے کی قوت خرید بڑھ جائے گی تو نہ شور ہوگا نہ ہڑتالیں ہوں گی نہ اپوزیشن اس میں کوئی کردار ادا کر سکے گی لیکن یہ ایک چھ ماہ کی بات ہے چھ ماہ میں پورے پاکستان میں جب یہ فصلیں اگیں گی اس کے جو فروٹس ہیں وہ پورے پاکستانیوں کے چہروں پر نظر آئیں گے اور وہ حکمرانوں کو اچھا بھی کہیں گے اور چاہیں گے کہ یہ حکمران سدا ہم پر حکومت کریں اور اسی طرح ہم پر اپنی عنایات کی بارش کرتے رہیں اسی طرح اگر اپ پاکستان کی دوسری جو انہار ہیں نہروں کے دائیں بھی بہت زمین خالی پڑی ہے اور وہاں پر بھی کوئی کاشت نہیں ہوتی ان جگہوں پر بھی سبزیاں پھل اور دیگر چیزیں لگانا شروع کر دیں تو اس سے ملک مالا مال ہو جائے گا اب مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ میری ساری گزارشات میں کسی جگہ بھی حکومت کو کسی پریشانی کا سامنا ہوگا یا انہیں کوئی نئی قانون سازی کرنی پڑے گی ان کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی یہ وہ کام ہے جو کہ ہر ضلع کونسل یونین کونسل تک کیا جا سکتا ہے اور کاشتکاروں کے لیے مختلف سطح کی کمیٹیاں بنائی جا سکتی ہیں اور ان میں بھی درخواستیں لی جا سکتی ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب ایسا کام ہوتا ہے تو اس میں پھر لٹھ بردار برداری ا ٓجاتی ہے حکمران اپنے بندوں کو نوازنا شروع کر دیتے ہیں اور جو کوئی اپوزیشن کا بندہ آئے اس کو وہ گھاس نہیں ڈالتے یہ نہیں ہونا چاہیے تو میں ذمہ داری سے کہتا ہوں اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان میں امن بھی ہوگا پاکستان کے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش بھی کم ہو جائے گا اور تھانے اور کچہری بھی خالی ہو جائیں گی کیونکہ جب پیٹ میں دانے ہوں گے تو ہر بندہ سیانا ہوگا اور وہ حکمرانوں کو گالیاں دینے کے لیے اپنے روزی روٹی کمائے گا۔
تبصرے بند ہیں.