یہ اتفاق کی بات ہے کہ 28 نومبر 1997ء کو جب مشتعل ہجوم نے سپریم کورٹ آف پاکستان پر حملہ کر کے عدالتی کارروائی ناکام بنا دی تو اس وقت یہ اعلیٰ ترین عدالت اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے ایک مقدمہ کا فیصلہ سنانا چاہتی تھی۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا اور اس وقت ن لیگ کی حکومت تھی۔ یہ اپنی تاریخ کا ایک منفرد اور غیر معمولی واقعہ تھا جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکا ہے۔ آپ طرز حکومت بدل سکتے ہیں آپ آئین بدل سکتے ہیں، آپ قانون بدل سکتے ہیں لیکن آپ تاریخ نہیں بدل سکتے۔ اس واقعہ کے بعد غلطی کا احساس سب کو ہو گیا تھا اور امید کی گئی کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہیں ہو گا مگر 10 ستمبر 2024ء کو پاکستان کی پارلیمنٹ بلڈنگ سے پی ٹی آئی ارکان کی گرفتاری کے لیے جو کچھ ہوا اس کے آگے سپریم کورٹ پر حملے کا واقعہ چھوٹی بات لگتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ کا تقدس سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ تو محض آئین کی تشریح کرتی ہے لیکن پارلیمنٹ وہ جگہ ہے جہاں قانون بنتا ہے۔ پارلیمنٹ کو آئینی عبادت خانے کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور یہ استحقاق پوری دنیا میں ہر ملک کی پارلیمنٹ کا حق سمجھا جاتا ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ جس طرح سپریم کورٹ پر حملہ ن لیگ کی حکومت ہوا تھا اسی طرح پارلیمنٹ بلڈنگ پر پولیس اور نقاب پوشوں کا چھاپہ بھی اسی ن لیگ کے اقتدار میں مارا گیا ہے۔ کچھ تاریخیں بڑی انمٹ ہوتی ہیں۔ 30 اکتوبر 2003ء کو اس وقت کے لیڈر آف دی اپوزیشن جاوید ہاشمی کو جب مشرف دور میں پارلیمنٹ لاجز سے باہر آتے ہوئے گاڑی روک کر انہیں نکال لیا گیا اور بعد میں ان پر غداری کا مقدمہ قائم کر کے عمر قید کی سزا سنائی گئی تو پارلیمنٹ کے تقدس اور بالادستی پر سب سے زیادہ احتجاج ن لیگ نے کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ بعد ازاں اسی جاوید ہاشمی کو ان کی اپنی پارٹی نے سیاسی طور پر عاق کر دیا۔ لیکن اس وقت سوال یہ ہے کہ حالیہ واقعہ پر ن لیگ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پر خوش ہونا ہے یا رنجیدہ خاطر ہونا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ہومیو
پیتھک احکام کے ذریعے کچھ سکیورٹی اہلکاروں اور سی ڈی اے کے کچھ الیکٹریشن معطل کیے ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے نقاب پوشوں اور پولیس کو اندر آنے دیا اور الیکٹریشن عملہ نے ان کے کہنے پر بلڈنگ کی بجلی کاٹ دی۔ سپیکر کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر سکتے تھے وہ انہوں نے کر دیا ہے جس سے ان کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔ کابینہ کے ارکان میں وزیر دفاع نے مذمت کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح وزیر اطلاعات نے بھی مذمت سے معذوری ظاہر کر دی۔ رانا ثناء اللہ نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ سرکاری اہل کار پارلیمنٹ بلڈنگ کے اندر نہیں گھسے۔ بعد میں اسمبلی میں تقریر کے دوران گرفتار رکن شیخ وقاص اکرم نے گرفتاری کی جو تفصیلات بتائی ہیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہیں انہوں نے اس کو پارلیمنٹ پر نقب زنی سے تعبیر کیا ہے۔ بہرحال سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو کچھ نہ کچھ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے ہاؤس کے محافظ بنتے ہوئے گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے ورنہ وہ صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے اس سے انکار بھی کر سکتے تھے۔
اس واقعہ نے ہمیں ن لیگ کی سیاست کو سمجھنے میں کافی معاونت کی ہے۔ ہمیں اتنا یقین ہے کہ اگر نوا زشریف وزیراعظم ہوتے تو وہ اس پر بہت شدید اعتراض کرتے خواہ ان کی حکومت چلی جاتی۔ شہباز شریف اور نواز شریف کی سیاست کا فرق صاف ظاہر ہو گیا ہے۔
ن لیگ کے سپیکر نے کھیل کو جاری رکھنے کی خاطر ایک نیا ”شطونگڑا“ چھوڑ دیا ہے کہ ہمیں میثاق پارلیمنٹ کی ضرورت ہے حالانکہ پارلیمنٹ کی بالادستی ہر شک و شبے سے بالاتر ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے آئین میں فول پروف انتظامات موجود ہیں آپ جسے چاہیں پارلیمنٹ میں طلب کر کے وضاحت مانگ سکتے ہیں۔ نئی قانون سازی یا میثاق پارلیمنٹ جیسے خیالوں کے تیر چلانا محض مسئلے سے پیدا ہونے والی صورتحال کی سنگینی میں کمی لانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومتی ارکان کو اس واقعہ کی مذمت کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔
جہاں تک لفظ میثاق کو جملے میں استعمال کرنے کا تعلق ہے تو یہ اس سے پہلے بھی جملے میں میثاق جمہوریت کے طور پر استعمال ہو چکا ہے۔ میثاق جمہوریت کی دھجیاں اقتدار کے ساتھ ہی بکھر گئی تھیں۔ میثاق پارلیمنٹ اگر ہو گیا تو اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔
اپوزیشن جماعت نے اسلام آباد میں جلسہ کر کے جو مقاصد حاصل کرنے کا سوچاتھا انہیں ان کا ہدف اور توقعات سے زیادہ کامیابی ہوئی ہے۔ اس چھوٹی سی جلسی کی بازگشت تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اگر اس جلسے کو ہونے دیا جاتا اور جلسے کی ڈیڈ لائن میں گھڑی سامنے رکھ کر منٹ اور سیکنڈ کا حساب نہ لگایا جاتا اور جلسہ ختم کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر پر پولیس حرکت میں نہ آتی اور لیڈروں پر جلسہ کے وقت کی خلاف ورزی پر دہشت گردی اور اقدام قتل کے مقدمات درج نہ کیے جاتے تو یہ جلسہ اگلے دن ہی عوام کو بھول جاتا مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ گویا ”میں جا چکا ہوں پھر بھی تیری محفلوں میں ہوں“۔
پارلیمنٹ کی عزت و توقیر کسی ایک پارٹی کی ذمہ داری نہیں ہے اس معاملے پر جملہ اراکین کو اسی طرح متحد ہونا چاہیے تھا جس طرح یہ اپنے لیے مراعات کے بل کے معاملے پر متفق ہوتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے ٹھیک کہا ہے کہ کل کو یہ ہم بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ن لیگ نے نیم دلی سے مذمت اور غیر مذمت کے درمیان والا راستہ اختیارکر کے جمہوریت کے لیے اچھا نہیں کیا۔ میں پھر اپنی بات دہراتا ہوں کہ یہ نوا ز شریف کا طرز سیاست نہیں ہے۔ شہباز شریف ہر صورت اقتدار سے ہم آغوش رہنا چاہتے ہیں۔
جس آئی جی کے حکم پر پارلیمنٹ پر چھاپہ پڑا ہے اسے کیوں معطل نہیں کیا گیا آپ نے سکیورٹی گارڈ اورالیکٹریشن تو معطل کر دیئے۔ اصل میں آئی جی کو وزیر داخلہ برخاست کر سکتا ہے اور شہباز شریف جانتے ہیں کہ ان کے وزیر داخلہ کا تعلق ان کی جماعت سے نہیں ہے لہٰذا وزیر موصوف وزیراعظم کے حکم کے باوجود آئی جی کی گوشمالی سے انکار کر سکتے ہیں۔ ایک بار پھر بیوروکریسی پاکستان میں جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے ایک مہرے کے طور پر کامیابی سے استعمال ہو گئی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.