ملک کی کچھ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مخالفین کی تذلیل کرنے کے لیے ریاست کو رسوا کرنے سے بھی باز نہیں آتیں۔ اس سلسلے میں وہ جن ہتھکنڈوں کا سہارا لیتی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کچھ عرصے سے نوجوان مایوس ہوکر بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر جارہے ہیں اور برین ڈرین ہورہا ہے۔ اُن مفاد پرست سیاسی جماعتوں کو آئینہ دکھانے کے لیے آج اسی موضوع پر اقوام متحدہ اور دیگر مستند اداروں کے ڈیٹا کے ساتھ بات کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اُن کی یہ بات کہاں تک درست ہے۔ آغاز میں وضاحت کے لیے دو نکات تحریر ہیں۔ پہلا یہ کہ ہجرت انسان کی فطرت میں شامل ہے اور جہاں زندگی گزارنے کے بہتر مواقع موجود ہوں وہاں ہزاروں برس سے انسان ہجرت کرتا آیا ہے۔ دوسرا یہ کہ پوری دنیا میں بہتر روزگار کے لیے عموماً نوجوان ہی دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں اور زیادہ تر بزرگ اپنے ملکوں میں ہی رہتے ہیں۔ اب آتے ہیں ڈیٹا کی طرف۔ باقی دنیا کو چھوڑ کر صرف سارک ممالک جوکہ ہمارے ہمسائے ہیں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ سب سے پہلے افغانستان کا ذکر کریں تو وہاں کئی دہائیوں پر محیط مخدوش حالات کی بنا پر اِس وقت تقریباً 82لاکھ افغان دنیا کے 103 ممالک میں آباد ہیں۔ بھوٹان بہت چھوٹا سا ملک ہے اور وہاں پر بظاہر کوئی سیاسی افراتفری ہے اور نہ ہی خانہ جنگی کا ماحول ہے مگر اِس وقت تک بھوٹان کے 65ہزار شہری ملک چھوڑکر جاچکے ہیں اور یہ تعداد بھوٹان کی آبادی کا تقریباً 10فیصد ہے۔ مالدیپ سارک ممالک کا اہم رکن ہے۔ اس کا کل رقبہ 300 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی کل آبادی تقریباً 5لاکھ سے کچھ زائد افراد پر مشتمل ہے۔ وہاں پر بھی کوئی سیاسی ہنگامہ خیزی یا افراتفری کا ماحول نہیں ہے مگر اس کے باوجود دو سے ڈھائی لاکھ مالدیپ کے شہری دوسرے ملکوں میں ہجرت کرگئے ہیں۔ یہ تعداد مالدیپ کی آبادی کا تیسرا حصہ بنتی ہے۔ نیپال ایک جمہوری ملک ہے۔ پہاڑوں میں گھرے اس خوبصورت ملک میں کوئی سیاسی بدصورتی نہیں ہے لیکن گزشتہ برس 2023ء میں تقریباً 5لاکھ نیپالی اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں آباد ہوگئے اور نیپالی شہریوں کے ہجرت کرنے کی یہ تعداد گزشتہ برس یعنی 2022ء سے دولاکھ زیادہ تھی۔ مطلب یہ ہوا کہ پہلے کی نسبت آنے والے برسوں میں نیپالی زیادہ تعداد میں ملک سے جارہے ہیں اور اب تک نیپال کی تقریباً 14فیصد آبادی دوسرے ملکوں میں آباد ہو چکی ہے۔ سری لنکا میں گزشتہ برسوں کے دوران سیاسی افراتفری اور معاشی حالات ابتر رہے۔ سری لنکا کے حکام کے مطابق صرف 2022ء میں 3لاکھ سے زائد سری لنکن اپنا ملک چھوڑکر چلے گئے۔ سری لنکا کا ایک چونکا دینے والا ڈیٹا بتاتا ہے کہ 2023ء میں حکومت سری لنکا نے 9لاکھ پاسپورٹ ایشو کئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سری لنکا میں شہریوں کے ملک چھوڑنے کی رفتار پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ حالانکہ اب سری لنکا میں پہلی سی بدامنی کی صورتحال نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے شہری دوسرے ملکوں میں ہجرت کرنے کی تعداد کے اعتبار سے دنیا میں چھٹے نمبر پر آتے ہیں۔ اب تک تقریباً 74لاکھ بنگالی اپنے ملک کو خیرباد کہہ کر دوسرے ملکوں میں جاچکے ہیں اور یہ تعداد بنگلہ دیش کی کل آبادی کا 5فیصد ہے۔ انڈیا جو اپنے آپ کو سپرپاور کہتا ہے اس کے شہری انڈیا کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جانے کے لیے کتنے بیتاب ہیں اُس کا اندازہ درج ذیل ڈیٹا سے خود لگایا جاسکتا ہے۔ بہتر حالات اور بہتر روزگار کے لیے شہریوں کا اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جانے کے رجحان کے اعتبار سے انڈیا دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ انڈیا سے ہجرت کرنے والوں کی رفتار کا ڈیٹا فیصد کے فارمولے کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بیکار ہوگا کہ انڈیا کی آبادی زیادہ ہے اس لیے وہاں سے لوگ بھی زیادہ جائیں گے اور افغانستان، بھوٹان، مالدیپ، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان کی آبادی کم ہے تو وہاں سے لوگ بھی کم ہی باہر جائیں گے۔ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق 1کروڑ 80لاکھ انڈین باہر کے ملکوں میں رہائش پذیر ہیں۔ دنیا کے مشہور ترین امریکی بزنس میگزین فوربز کے مطابق امریکی سرکاری ریکارڈ بتاتا ہے کہ اِس وقت 10لاکھ سے زائد انڈین ہنرمند افراد نے امریکی ویزے کی درخواست دے رکھی ہے اور انتظار کی لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے ہیلتھ اینڈ ہیومن سروس ڈیپارٹمنٹ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق ہرسال 11ہزار سے زائد انڈین یونیورسٹی گریجویٹ نوجوان مزید تعلیم یا روزگار کے لیے دیگر ممالک میں چلے جاتے ہیں اور ان میں سے تقریباً 23 فیصد نوجوان انہی ملکوں کی شہریت اختیار کرلیتے ہیں۔ انڈیا کے اپنے مشہور میگزین نیشنل ہیرالڈ انڈیا کے مطابق 2017ء میں 69ہزار ڈاکٹرز اور 56ہزار نرسیں انڈیا چھوڑ کر چلی گئیں اور اب یہ تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے۔ انڈیا کی منسٹری آف ہوم افیئرز کے مطابق 2017ء سے 2021ء تک یعنی 5برس کے دوران تقریباً ساڑھے سات لاکھ انڈین شہریوں نے انڈیا کی شہریت چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کی۔ انڈیا کی مشہور ویب سائٹ دی اکنامک ٹائمز کے مطابق 2022ء اور 2023ء کے دوران یعنی 2برس میں انڈیا کے 14ہزار امیر ترین شہری بھی ملک چھوڑکر چلے گئے۔ مارچ 2024ء کے دوران پاکستانی میڈیا میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے تحت تقریباً 7لاکھ پاکستانی شہری ملک سے ہجرت کرکے دوسرے ملکوں میں گئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تعداد 25کروڑ کی آبادی میں 1فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔ اب ذرا سارک ممالک سے نکل کر چلتے چلتے برین ڈرین کے سلسلے میں برطانیہ کی صورتحال بھی دیکھ لیتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک نیوز ویب سائٹ lbc.co.uk نے ایک جنرل میڈیکل کونسل سٹڈی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ برطانیہ میں 1500 ڈاکٹروں پر سٹڈی کی گئی جن میں سے 13فیصد برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس میں کام کرتے ہیں، فوری طور پر ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں جبکہ اگلے 12ماہ میں 17فیصد ہیلتھ سروس چھوڑ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ڈاکٹرز ریگولیٹر کا خیال ہے کہ اگر اس ڈیٹا کو پورے ہیلتھ سسٹم پر لاگو کرکے دیکھا جائے تو اگلے برسوں میں تقریباً 96ہزار ڈاکٹر این ایچ ایس چھوڑ سکتے ہیں۔ آخر میں ایک نظر اقوام متحدہ کے جاری کردہ اُس چارٹ پر ڈالتے ہیں جس میں شہریوں کے ہجرت کرنے کے اعتبار سے ملکوں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ یہ فہرست لمبی ہے لیکن یہاں صرف پہلے سات نمبروں تک پیش کی گئی ہے۔ اس درجہ بندی کے مطابق پہلے نمبر پر انڈیا، دوسرے نمبر پر میکسیکو، تیسرے نمبر پر روس، چوتھے نمبر پر چین، پانچویں نمبر پر شام، چھٹے نمبر پر بنگلہ دیش اور ساتویں نمبر پر پاکستان ہے۔ جی ہاں شہریوں کے اپنا ملک چھوڑنے کے ضمن میں دنیا میں انڈیا کا نمبر پہلا اور پاکستان کا نمبر ساتواں ہے۔
تبصرے بند ہیں.