امریکہ تاریخ کے مشکل دوراہے پر ہے نہ صرف تجارتی،معاشی اور دفاعی چیلنجز درپیش ہیں بلکہ دیوالیہ کابھی خطرہ ہے امریکی حکومت کے قرضے 350 کھرب ڈالرسے تجاوز کر چکے ہیں جن پر سود کی ادائیگی دفاعی بجٹ سے بڑھ چکی ہے اِس وجہ سے کئی ایک تحقیقاتی منصوبے کھٹائی کے دہانے پر ہیں اِن مسائل کا حل نئی قیادت نے تلاش کرنا ہے دنیاکی نظریں نومبر کے صدارتی انتخابات پر ہیں جن میں دوماہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے نئی قیادت کومسائل کے انبار کا علم ہے یانہیں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ خاتون صدرمنتخب ہونے کے امکانات روشن ہیں اپنی مخالف امیدوار کو شکست دینے کے لیے ایک طرف ریپبلکن ٹرمپ کے لیے ووٹروں کی اکثریت حاصل کرنے کے ساتھ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے خدشات دور کرنا بھی ضروری ہے اگر ایسا نہیں کیا جاتاتوگزشتہ الیکشن کی طرح رواں برس بھی جیت پاس آکر دور ہو سکتی ہے امریکی ووٹرز ملک کو درپیش مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جذبات سے بھی نہیں نکل پارہے۔
ٹرمپ سابق صدر ہیں اور کملا ہیرس کو نائب صدارت کے منصب پر کام کرنے کا تجربہ ہے اِس بنا پر دونوں میں سے کسی کو اناڑی یا ناتجربہ کار نہیں کہا جا سکتا لہٰذا دونوں کو ملکی مسائل کا ادراک ہو ناچاہیے مگردس ستمبرکے نوے منٹ پر محیط پہلے صدارتی مباحثے میں کسی نے اصل مسائل کا ذکر اور اُن کا حل نہیں بتایا بلکہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی معیشت،مہنگائی،تولیدی حقوق،روس اور یوکرین میں جاری جنگ سمیت اسرائیل کی غزہ پر بمباری جیسے موضوعات پر بحث توکی گئی محض ذاتی نوعیت کی خامیاں اُجاگر کرنے پر توجہ مرکوز رہی کسی نے ایسا کچھ نہیں کہا جس سے ایسے کسی خیال کو تقویت ملتی ہو کہ دنیا کو پُرامن بنانے کے حوالے سے سنجیدہ ہے الزامات کی بوچھاڑ سے ایسا باورکرایاگیا کہ حریف کی کامیابی سے جمہوریت اور ملک کولاحق خطرات میں اضافہ ہوگا یہ طرزِ عمل سطحی ہے اور مسائل سے فرار کاآزمودہ طریقہ بھی، دونوں امیدوار ایک دوسرے کو جھوٹا کہتے ہیں ایسا کہنا بھی امریکی سیاست کاجزولازم بن چکاہے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح امریکی ووٹرز اور سپورٹرزبھی حقائق تک پہنچنے کے بجائے اپنے امیدوار کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں پہلے صدارتی مباحثے کے فوراََ بعد کون کِس حد تک کامیاب رہا حامیوں کے ساتھ ملکی و عالمی
میڈیامیں بحث جاری ہے لیکن کملا کی جیت پر اکثریت متفق ہے جس نے سات ہفتوں کی انتخابی مُہم میں ہی حریف کو کئی محاذوں پر پچھاڑ دیا ہے وہ مقبولیت میں ایسی ریاستوں میں بھی آگے ہیں جوٹرمپ کی حمایتی سمجھی جاتی تھیں حالانکہ چودہ جولائی کو ایک انتخابی حملے میں زخمی ہونے پر ٹرمپ کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوگیا تھا جو اب معدوم ہو چکی ہے حالات یہ ہیں کہ گزشتہ ماہ اگست میں کملا ہیرس کو 361 ملین ڈالرکے عطیات ملے جو حریف کو حاصل ہونے والی رقوم سے تین گنا زائد ہے اُن کی نامزدگی سے ڈیموکریٹ صفوں میں یکجہتی کی فضا بنی ہے فلاڈلفیا میں امریکی نشریاتی اِدارے اے بی سی نیوز نے جب پہلے صدارتی مباحثے کا اہتمام کیا تو عام قیاس یہی تھا کہ ٹرمپ قاتلانہ حملے کو موضوع بحث بنائیں گے لیکن حیران کُن طور پر ٹرمپ نے ایسے کئی پہلو نظر انداز کر دیئے ابتدائی پندرہ منٹ میں کسی حدتک ٹرمپ کچھ حاوی رہے مگرنائب صدر بننے سے قبل کیلیفورنیا میں پبلک پراسکیوٹر کی حیثیت سے حاصل ہونے والا تجربہ کام آیااورجلدہی کملا ہیرس نے پُرسکون اور پُراعتماد لب و لہجے میں دلائل سے سوال کرنا شروع کیے توٹرمپ سنبھل ہی نہ سکے مبصرین متفق ہیں کہ پہلا صدارتی مباحثہ خاتون امیدوارنے جیت لیا ہے امریکی میڈیا کے پول میں ووٹرز کی رائے کے مطابق ایک ٹاکرے سے ہی کملا کے حق میں 63جبکہ ٹرمپ کی کارکردگی سراہنے والوں کا تناسب محض 37فیصد رہ گیاہے۔
امریکی قیادت کبھی انسانی حقوق کی علمبردار خیال کی جاتی تھی لیکن غزہ پر اسرائیلی حملوں سے یہ نقاب بڑی حدتک اُتر چکاہے اور دنیا سمجھ گئی ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں بلکہ مفادات کی نگہبانی سے غرض ہے موجودہ دونوں صدارتی امیدوار اسرائیل کے تحفظ پر متفق ہیں پہلے صدارتی مباحثے میں جب میزبان نے دریافت کیا کہ آپ غزہ میں اسرائیل کی جنگ اور مذاکرات کے تعطل کو کیسے ختم کر سکتی ہیں؟ تو جواب میں کملا ہیرس نے اپنے پُرانے بیانات دُہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے انھوں نے جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ دوریاستی حل اور غزہ کی تعمیر نو کی بات کی غزہ پر حملے ختم کرانے اور حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے شہریوں کو واپس کیسے لائیں گے جیسے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ٹرمپ کا کہناتھا کہ وہ صدرہوتے تو یہ تنازع شروع ہی نہ ہوتا اور اپنی حریف پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل سے نفرت کرتی ہیں اِس لیے اُن کے صدربننے سے اسرائیل کا وجود نہیں رہے گا انھوں نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں اسرائیل و غزہ مسئلہ سے فوری نمٹنے کے ساتھ روس اور یوکرین جنگ ختم کرانے کا دعویٰ کیا مگر جب ٹرمپ نے موجودہ صدر پر تنقید کا آغاز کیا تو کملا ہیرس نے کہا کہ آپ کے مدِ مقابل بائیڈن نہیں میں ہوں یہ کافی کرارا جواب تھا جس سے ٹرمپ کنفیوز نظر آئے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے خاتون امیدوار نے گفتگوکے دوران پوٹن کو ڈکٹیٹر کہہ دیا اور کہا کہ وہ آپ کو لنچ پر کھا جائیں گے ایسے الزامات ٹرمپ کے مخالفین کا وتیرہ ہے اور وہ اِسے ووٹرزکو اپنی طرف مائل کرنے کا کارگرنسخہ تصورکرتے ہیں کیونکہ روسی قیادت کے بارے میں امریکی رائے دہندگان کی رائے اچھی نہیں جبکہ ٹرمپ کو روس کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والا سمجھا جاتا ہے اسی بنا پر انسانی حقوق اور اسرائیلی مظالم بارے سخت رویہ نہ رکھنے کے باوجود خیال ہے کہ کملا ہیرس کا جیتناکچھ زیادہ مشکل نہیں رہا جب اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردیاں بھی ساتھ ہوں۔
جہاں تک ملکی مسائل کی بات ہے تو اِس حوالے سے بھی دونوں امیدواروں کے خیالات میں زیادہ فرق نہیں کملا ہیرس رہائشی مشکلات دور کرنے اور چھوٹے کاروباروں کو فروغ دینے کی بات کرتیں اور حریف پرصدربننے کی صورت میں ارب پتی افراداور کمپنیوں کو صدر منتخب ہو کر ٹیکس میں رعایت دینے کاالزام لگاتی ہیں وہ امریکی خواتین کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اسقاطِ حمل کا حق بحال کرانے کے حوالے سے بھی کافی جذباتی ہیں جبکہ ٹرمپ اب بھی تارکین وطن کوایک خطرہ اور انھیں شہریوں کے پالتو جانور کھانے میں ملوث قرار دیتے ہیں وہ دوسرے ممالک پر ٹیرف عائد کرنے کا عزم رکھتے ہیں پہلے مباحثے سے کملا ہیرس نے بہت کچھ حاصل کیا ہے وہ ایک طرف خواتین کے حقوق کی علمبردارکے طور پر سامنے آئی ہیں تو دوسری طرف متوسط امریکیوں کے حقوق کی ایسی پاسبان،جسے محفوظ،مستحکم اور خوشحال اسرائیل بھی بہت عزیز ہے یہ وہ عوامل ہیں جن سے کملا ہیرس کی حمایت میں سرعت سے اضافہ ہوا ہے اور اُن کے منتخب ہونے کے آثار وقوی تر ہونے لگے ہیں ٹرمپ اگر ووٹرز کے نبض شناس ہوتے تواصل مسائل پر بات کرتے غصہ دکھانے اور بے سروپا باتیں کرنے سے مقبولیت میں اضافہ نہیں ہوتا جب اسٹیبلشمنٹ بھی خدشات کی بناپر محتاط ہو تو ٹرمپ کی کامیابی معجزہ ہی ہوگا۔
تبصرے بند ہیں.