بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے نام کے پاکستانی شاہینوں کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے دو ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کے خلاف جہاں کلین سویپ کیا، وہاں بنگالیوں نے ایک تاریخ بھی رقم کر دی۔ جہاں انہوں نے ورلڈ چمپئن ٹیسٹ میں پاکستان کو نمبرنگ میں بہت پیچھے دھکیل دیا یہ بات بھی ثابت کر دی کہ ڈیڈ وکٹوں پر میچ جیتے جا سکتے ہیں۔ اگر جیتنا چاہیں تو بنگلہ دیش نے ایسا کر دکھایا۔ میں یہاں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی کو ہزار بار مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ جب سے کرکٹ بورڈ میں براجمان ہوئے ہم نے فتوحات کے دروازے بند کر دیئے۔ مبارک ہو کہ آپ کی سربراہی میں پہلے انگلینڈ نے ہمیں کلین سویپ کیا، اب بنگلہ دیش نے بھی وہی تاریخ دہرا دی۔ آپ کو مبارک ہو کہ جو ٹیم سرجری آپ نے کرنا تھی وہ بنگالیوں نے دو ٹیسٹ میچوں میں کر دی۔ اگر ماضی کی طرف دیکھوں تو میرا یہ کہنا ہے کہ ہم نے جتنے بھی کرکٹ میں ادوار گزارے۔ یہ ہماری کرکٹ تاریخ کا نہ صرف برا ترین دور بلکہ بہت بری بہت کم تر اور بہت خراب ٹیم ہے۔ یہ تو وہ ٹیم ہے جو سینٹرل کنٹریکٹ میں ماہانہ کروڑوں روپے تنخواہ لیتی ہے اس کے بدلے میں پوری قوم کو ذلیل و رسوائی دینے کے ساتھ کرکٹ کے لیے بھی تباہی کا سامان پیدا کئے ہوئے ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی کرکٹ ٹیم زوال کی تمام حدیں عبوری کر چکی ہے کیا اس کی صلاحیتوں کو زنگ لگ گیا ہے کیا ٹیم جمود کا شکار ہے، کیا ہم اتنے گر چکے ہیں کہ بار بار گرنے کے بعد دوبارہ اٹھ نہیں سکتے؟ کہتے ہیں کہ زوال کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور وہ حد بھی ہم نے عبور کر ڈالی اور ہماری ٹیم نے راولپنڈی کی ڈیڈ وکٹ پر بری ترین پرفارمنس دے کر یہ بات ثابت کر دی کہ یہ تو کوئی شکست نہیں۔ اگر اس سے بری شکست لینا پڑی تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔
محسن نقوی کی یہ کیسی ٹیم ہے دوسرے ٹیسٹ میں جو دوسری وکٹ کی شراکت میں ایک سو رنز بناتی ہے اور پھر باقی 9وکٹیں صرف 150رنز کے عوض گنوا دیتی ہے اور کیا ہم اتنے برے ہوگئے ہیں کہ بنگلہ دیش کو ہم 26سکور کے مارجن پر 6کھلاڑیوں کو پیولن کا راستہ دکھا دیتے ہیں اور بقیہ 4کھلاڑی سکور کو 250تک لے جاتے ہیں۔ ایک موقع پر بنگالی بابے تو فالو آن ہونے جا رہے تھے تو ان کے مڈل اور ٹیل آرڈر بالروں نے وہ کر دکھایا جس کی ٹیسٹ کرکٹ میں بہت کم مثال ملتی ہے اور ہمارے لیے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے کہ نہ تو ہماری ٹیم کے پاس مڈل آرڈر میں بلے باز نہ بالر اور نہ کوئی مین آف دی کرائسس اور نہ کسی بڑے بلے باز کا متبادل جو کم از کم ٹیم کو میچ کے اندر تو رکھے اور محسن نقوی کی ٹیم تو اب بنی ہے اس سے پہلے گزشتہ چار سال میں ہم ہوم گراؤنڈ پر کوئی ٹیسٹ سیریز بھی نہ جیت سکے۔ یہی ٹیم گزشتہ پانچ سالوں سے قوم کو شرمندہ کئے ہوئے ہے۔ یہ صرف شرم کا نہیں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ بنگلہ دیشی کھلاڑی جو پاکستان میں یا پاکستان کے خلاف کوئی ٹیسٹ جیتنے کا خواب دیکھا کرتے تھے وہ ہمیں ہمارے ہی گھر میں کلین سویپ کر گئے۔ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں لکھا تھا کہ موجودہ کرکٹ ٹیم کو گھر بھجوائیں بہت ناقص کھیل انہوں نے کھیل لیا۔ بس کریں اب قوم کے ساتھ یہ مذاق، بس کریں اب ہمارے ساتھ مزید کھلواڑ، اب تو ہار دیکھتے دیکھتے ہمارے ذہن تھک چکے ہیں۔ محسن نقوی صاحب کرکٹ چلانا کرکٹ کھلانا آپ کے بس کا روگ نہیں البتہ اس میں آپ کا قصور کم ان حکومتوں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے جو کھیلوں میں سیاسی کھلاڑی اتار کر کھیل اور کھلاڑی دونوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے ہم کرکٹ کے علاوہ تمام کھیلوں کو بھی تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ سیاستدان سیاست تو کر سکتا ہے وہ کھیل سے ناواقف ہونے کے سبب اس کا ستیاناس کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنی سیاسی وفاداریوں کی وجہ سے ہم پیرس اولمپکس 2024ء میں صرف ایک گولڈ میڈل لا پائے اس لیے کہ پاکستان میں سپورٹس ادارے چلانے والے ہی نابلد ہیں۔
اگر آن ریکارڈ بات کریں تو گزشتہ تین سالوں میں کرکٹ بورڈ کو چار چیئرمین ملے۔ ان میں ایک کرکٹر، باقی تین سیاسی نامزدگیاں، چھ ہیڈ کوچیز ماشاء اللہ… اور سات چیف سلیکٹر الحمد اللہ ہم پھر بھی ہارتے رہے اس کا مطلب ہے کہ اس تباہی میں جو ہمارے ماتھوں پر نقش کر دی گئی ہے اس میں سب مجرم اور سب قصوروار ہیں۔ موجودہ ٹیم میں ماشاء اللہ بڑے سپر سٹارز ہیں جو پنڈی ٹیسٹ میں صرف کم ترین 184کا ہدف بنگلہ دیش کو دینے کے بعد باآسانی ہار کر شرمندہ شرمندہ میدان سے باہر آ جاتے ہیں۔پنڈی ٹیسٹ میں باؤلنگ تباہ، فیلڈنگ تباہ، بیٹنگ تباہ، کوچنگ تباہ، ٹیم مینجمنٹ تباہ، پرفارمنس تباہ۔ اب باقی ہمارے پاس کیا رہ گیا ہے جو ہم مایوس عوام کو دے سکیں۔ موجودہ بورڈ کی تباہ کن پرفارمنس کے بعد کیا محسن نقوی سے لے کر شکست کے تمام ذمہ داروں سے ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ باعزت طریقے سے کہ اب بھی ایک راستہ رہ گیا ہے وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ ویسے تو پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں استعفیٰ دینے کا رواج نہیں مگر موجودہ صورتحال میں جبکہ ٹیم تباہ ہو چکی ہے سسٹم آپ کا خراب ہے، کرکٹ کا نظام آپ چلا نہیں سکتے، کھلاڑی آپ کے کنٹرول میں نہیں، ٹیم کے اندر گروپنگ آپ ختم نہیں کر سکے تو پھر آپ کو کوئی حق نہیں کہ بڑے عہدوں پر براجمان رہیں۔ خدارا! ہماری جان چھوڑیں، کرکٹ کی جان چھوڑیں۔ میرے نزدیک تو پاکستان میں کرکٹ کھیل نے اگر اسی طرح ذلتیں، ندامتیں، شرمندگیاں دینا ہیں تو پھر اس کھیل ہی کو بند کریں اس کھیل کو جس نے سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں دینا۔ بنگلہ دیش سے ہارے کوئی بات نہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کس ذلت کے ساتھ ہارے وہ بھی ہوم وکٹوں پر جب سب کچھ میزبان ٹیم کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور آپ باآسانی دونوں ٹیسٹ میچوں میں بچوں جیسی ٹیم کی پرفارمنس دیں اور آپ کا معیار کلب کرکٹ سے بھی نیچے چلا جائے یقین کریں کہ دل نہیں مانتا کہ ہم اتنی کمزور اتنی بری ٹیم ہیں کہ کوئی بھی ٹیم ہمارے ہمارے گھر آئے اور ہرا کر چلی جائے۔ ہمارے کھلاڑیوں کا مؤقف ہے کہ دونوں ٹیسٹ میچوں میں وکٹیں بری تھیں تو پھر انہی بری ترین وکٹوں پر بنگلہ دیشیوں نے آپ کو ناکو چنے چبوا کر یہ ثابت کیا کہ وکٹ اچھی تھی آپ برا کھیلے۔ اس لیے کہ آپ نے کرکٹ کھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
آپ میچ جیتنے کے لیے سنجیدہ ہی نہیں تھے دونوں ٹیسٹ میچوں میں آپ پرفارمنس دیکھ لیں اور موازنہ کریں بنگلہ دیش کی ٹیم کے ساتھ شرم آنی چاہئے کہ کیا آپ کو حق ہے کہ آپ پاکستان کی نمائندگی کریں۔ شہبازشریف جو کہ کرکٹ کے پیٹرن انچیف ہیں کیا ان کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم کس قدر تباہ ہو چکی ہے اور ہم کس قدر پستی میں گر چکے ہیں۔ آپ سیاستدان ہیں ضرور سیاست کریں مگر کھیل میں سیاست کو ختم کریں۔ کرکٹ کو چلانا سیاست دانوں کا کام نہیں۔ انہوں نے ملک تباہ کر دیا، یہ کھیل کیا چیز ہے۔
اور آخری بات…!
ہم کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی سے گزارش کرتے ہیں کہ خدا کے لیے آپ نے اس کو جتنا تباہ کرنا تھا کر لیا۔ کرکٹ کے نظام کو چلانا فل ٹائم جاب ہے اور وقت آپ کے پاس نہیں ہے جب باپ کی شفقت نہیں ملے گی تو بچے رْل جاتے ہیں جیسے ہماری ٹیم رل گئی۔ آپ کے سامنے تباہ ہو گئی خدارا یا تو آپ اس کی جان چھوڑ دیں یہ آپ کے بس کا روگ نہیں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کرکٹ میں لاڈلاازم ختم کریں۔ موجودہ ٹیم سیٹ اپ گھر بھجوائیں جو کرکٹ چلانا جانتے ہیں ان کے حوالے کرکٹ ٹیم اور اس کے نظام کو کریں۔
تبصرے بند ہیں.