اِسلام کا خوف یا اِسلامو فوبیا آج کل ہر طرف مشہور ہے۔ ہر سو اِس کا چرچا ہے۔ مغرب،خاص طور پر یورپ اَور امریکہ میں تو یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ آج کل برطانیہ اَور دِیگر یورپی ممالک میں جوصورتِ حال ہے اْس سے لگتا ہے کہ وہاں کے لوگ اَب مسلمانوں کو اَپنے ملک میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اِس صورتِ حال کو دیکھنے کے دو اَنداز ہیں۔ ایک تو یہ کہ اِسلام تو اَمن کا دِین ہے۔ اِس کا خوف پھیلانا دراصل یہودی اَور عیسائی سازِش ہے۔ وہ اِسلام کو ساری دْنیا میں بدنام کرنا چاہتے ہیں اَور چاہتے ہیں کہ مسلمان اْن کے ممالک سے نکل جائیں۔ وہ مسلمانوں کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ پہلو ہے جو ہمیں بتایاجاتا ہے اَور ہمیں بہت پسند آتا ہے۔
اِس کا ایک دْوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ خوف آج سے تیس سال پہلے تک کیوں موجْود نہیں تھا۔ اْس زمانے میں مسلمان یورپ اَور امریکہ میں نہایت آرام سے رہ رہے تھے۔ وہ وہاں نوکریاں کرتے تھے۔ اْن کے کاروبار تھے۔ وہ اْس معاشرے میں گھل مل گئے تھے۔ مغرب میں رہنے والے مسلمان اَپنے ملک میں رہنے والوں سے کہتے تھے کہ تم لوگ کہاں رہ رہے ہو۔ یہاں آؤ۔ یہ جگہ جنت ہے۔ یہاں ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں۔ اَمن و اَمان ہے۔ اچھی تعلیم ہے۔ دْنیا کی ہر نعمت دستیاب ہے جو خالص اَور صاف ستھری ہے۔ پھر کچھ اَیسا ہوا کہ یہ صورتِ حال تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ اَور اَب یہ عالم ہے کہ ہر طرف مسلمانوں کو دیکھ کر تھو تھو ہورہی ہے۔
بڑے طور پر دیکھا جائے تو نو ستمبر 2011میں نیویارک کی دو بلڈنگوں سے جہازوں کے ٹکرانے سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ اِسے اَب دْنیا 9/11کہتی ہے۔ معاملہ یہیں پر نہیں رکا۔ سات جولائی 2005کو لندن میں چار مختلف مقامات پر خودکش بمباروں نے تباہی مچائی۔ اِسے اَب 7/7کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اِس سے پہلے بھی اِس طرح کے حملے ہوتے رہے تھے۔اکیس دسمبر1988میں پین امریکن کی فلائیٹ 103کو بھی تباہ کردِیا گیا تھا۔ اِن سب میں مسلمان ملوث تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب سازِش تھی۔ اصل میں یہ یہودی تھے۔ وہ مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے تھے۔ اِس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عراق اَور شام میں جن کی حکومت بنی تھی کیا وہ بھی یہودی تھے۔ کیا پاکستان میں ہونے والے بیشمار دہشت گرد حملوں میں بھی یہودی ملوث تھے؟ کیا آرمی پبلک اسکول پشاور پر یہودیوں یا ہندوؤں نے حملہ کیا تھا؟
زیادہ سے زیادہ جو بات مانی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہودیوں یا ہندوؤں نے مسلمانوں کو بے وقوف بناکر اْن سے یہ کام کروایا۔ اگر یہ سچ بھی ہو تو کیا ہم یہ مان لیں گے کہ روزِ قیامت اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے تو شیطان نے بہکایا تھا اِس لیے میں نے گناہ کیے تو اْسے چھوڑ دِیا جائے گا؟ اَیسا نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اْس روز لوگ شیطان کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے لیکن شیطان یہ کہے گا کہ تم لوگوں پر میرا کوئی زور نہیں تھا۔ تم خود میری پیروی کرنا چاہتے تھے، اِس لیے تم نے یہ کام کیے۔ چنانچہ شیطان اَور اْن گناہ گاروں کو جہنم میں ڈال دِیا جائے گا(سورۃ اِبراہیم۔ آیت 22)۔ اگر بالفرض یہودیوں یا ہندوؤں نے مسلمانوں کو اْکسایا بھی تھا تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ مسلمان دْنیا کی بے وقوف ترین قوم ہے۔ اِسے جو جدھر لے جانا چاہے، یہ چل پڑتے ہیں۔ گویا یہ مٹی کے مادھو یا موم کی ناک ہیں۔ اگر اَیسا ہے تو پھر اَیسی قومیں دْنیا کے نقشے پر زیادہ دیر تک نہیں رہتیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان چودہ سو برسوں سے دْنیا میں موجود ہیں اَور اِن کی تعداد میں دِن بہ دِن اِضافہ ہی ہورہا ہے۔ چنانچہ اِنھیں مٹی کا مادھو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ پھر تو صرف یہی بات باقی بچتی ہے کہ یہ سارے کام اِن لوگوں نے خود اَپنی مرضی سے خوب سوچ سمجھ کر کیے۔
اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو لگا کہ مغربی ممالک اْن پر بڑے مظالم ڈھا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس علم کی کمی کے باعث وہ طاقت نہیں تھی جو اْن ظالموں کو روک سکے۔ چنانچہ اْنھوں نے یہ طریقہ اِختیار کیا۔ یوں دراصل اْنھوں نے اَپنے تئیں خود پر ہونے والے مظالم کا اِنتقام لیا تھا۔ لیکن مسلمانوں کا اَپنا دِین اِس کام کو ناپسند کرتا ہے۔ اگر الف نے ب پر ظلم کیا ہے تو ب کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بدلے میں جیم سے اِنتقام لے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر، لندن کی اَنڈر گراؤنڈ اَور بس اَور ہوائی جہاز میں تو معصوم لوگ بیٹھے تھے۔ اْن کو موت کے منہ میں دھکیل دینا کسی طرح اِسلامی لحاظ سے دْرست نہیں تھا۔ چنانچہ اگر مسلمان کمزور ہیں تو اِسلام اِس چیز کی اِجازت نہیں دیتا کہ اَپنے اْوپر ہونے والے مظالم کا بدلہ معصوموں سے لے کر اَپنا کلیجہ ٹھنڈا کریں۔ یہ تو وہی صورتِ حال ہے جو عرب میں اِسلام کے آنے سے پہلے دورِ جاہلیت میں تھی۔ تب بھی ایک مرد کے قتل کا بدلہ کئی عورتوں ، بوڑھوں اَور بچوں سے لیا جاتا تھا۔
دْوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم یورپ اَور امریکہ میں خاصی تعداد میں ہیں۔ یہاں ہماری مساجد ہیں۔ ہم مذہبی لحاظ سے بالکل آزاد ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم یہاں اَپنی سوچ کے مطابق اِسلام کو نافذ کریں۔ چنانچہ اِس طرح کے کام شروع ہوئے کہ مذہبی تنظیمیں بنیں اَور اْنھوں نے جہاد کا پرچار شروع کیا۔ لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرکے عراق اَور شام بھجوایا گیا۔ اْنھی لوگوں کے ذریعے یورپ اَور امریکہ میں بھی جہاد شروع کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہم یہ بھول گئے کہ یہ وہی ممالک ہیں جنھوں نے اَپنے ملک میں ہمیں جگہ دی،مساجد بنانے، دِین کی تبلیغ کرنے کی اِجازت دی، حلال چیزوں کی دستیابی کو ممکن بنانے میں مدد کی۔ کیا مسلمان ممالک میں عیسائیوں اَور یہودیوں یا ہندوؤں کو اِتنی اِجازت ہے؟ کیا ہم خوش دِلی سے اْن کی تبلیغ اَور عبادت گاہوں کی تعمیر کو تسلیم کرلیتے ہیں؟ اَیسا نہیں ہے۔ ہمارے یہاں تو شور پڑ جاتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ تو جن ممالک نے بڑے دِل کا مظاہرہ کیا ہم نے اْس کا غلط مطلب نکال کر اْنھیں ہی وہاں سے بے دخل کرنے کا پلان بنانا شروع کردِیا۔ یہ چیز کون برداشت کرے گا؟ چنانچہ اَب ہر طرف سے یہ آواز اْٹھنا شروع ہوگئی کہ اِنھیں یہاں سے نکالو۔ یہ متشدد لوگ ہیں۔ یہ اَمن کے دْشمن ہیں۔ یہ وحشی ہیں۔ یہ بڑے بڑے مظالم ڈھاتے ہیں۔ آپ اِس کے جواب میں اَپنے دِل کی تسلی کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ یورپی اَور امریکی اقوام نے بھی دْنیا پر بڑے مظالم ڈھائے تھے۔لیکن وہ طاقت ور تھے۔ اْنھوں نے اَپنے ملک میں بیٹھ کر جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے۔ جاپان میں امیگریشن لے کر یہ کام نہیں کیا۔ سلطنت برطانیہ نے ہندوستان پر تجارت کے بھیس میں قبضہ کرلیا۔ پھر یہاں مظالم ڈھائے۔ کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں کہ چونکہ اِنھوں نے ہم پر مظالم ڈھائے تھے لہٰذا ہم بھی اَب اْن کے ملک پر قبضہ کرکے اْن کی اَیسی کی تیسی پھیر سکتے ہیں؟ کیا ہمارا مذہب اِس کی اِجازت دیتا ہے؟ ضرورت اِس امر کی ہے ہم یہ جانیں کہ اقوامِ عالم میں ہماری کیا حیثیت ہے، ہم طاقت میں کہاں کھڑے ہیں، ہمارا دِین ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے، ہماری درخشاں تارِیخ کیا بتاتی ہے۔ پھر ہم آگے کی منصوبہ بندی کریں۔ ہم ساری دْنیا کو مسلمان کرنے چلے ہیں جبکہ ہمارا اَپنا حال یہ ہے کہ ہمارے اَندر دْنیا کی ہر بْرائی، ہر خرابی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ ہم کس منہ سے دْوسروں کو اَپنے دِین کی تبلیغ کریں گے؟ پہلے خود دْرست ہوں، نبی اکرمؐ کی سنت پر عمل کریں پھر لوگ خود بہ خود ہماری طرف آئیں گے۔ ورنہ اِسلام کا خوف مسلمانوں کے قتل عام کی طرف چلا جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.