پاکستان کی حالیہ دہائیوں کی سیاست میں ایک سیاسی نظریے کی بازگشت اکثر سنائی دیتی رہتی ہے کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے لیکن بین الاقوامی دنیا میں معاہدوں میں تاخیر خطرناک سمجھی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کا پاکستان سے ہمیشہ جھگڑاہی اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ معاہدوں کے تقدس کا پاس نہیں کرتے بلکہ جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آتا ہے تو آپ معاہدے سے ہی منحرف ہو جاتے ہیں۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان گزشتہ سال ایک عبوری مدت کا سٹینڈ بائی ایگریمنٹ ہوا جس کے بعد الیکشن 2024ء میں نئی حکومت نے عالمی مہاجن یا lender سے استدعا کی کہ ایک دو ارب سے ہمارا کام نہیں چلتا ہمیں کم از کم 8 بلین ڈالر کا قرضہ دیا جائے۔ اس پر عالمی ادارے کے ساتھ اپریل میں سٹاف لیول مذاکرات کا آغاز ہوا اور طویل مذاکرات کے بعد قوم کو خوشخبری دی گئی کہ 37 ماہ کی مدت کے لیے 7 ارب پر بات ہو گئی ہے لیکن معاہدے کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے دینی ہے جو اگست کے آخری ہفتے میں فیصلہ کرے گا ۔ قرضہ ملنے کے وعدے پر ملک میں کاروباری سرگرمیاں خصوصاً سٹاک ایکسچینج کا گراف سارے ہدف عبور کر گیا۔ بینکوں میں سرگرمیاں بحال ہونے لگیں اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر مستحکم ہو گئی۔ لیکن اس ہفتے جب آئی ایم ایف کے معمول کے اجلاس کے انعقاد کا وقت آیا اور اس کے ایجنڈے کی تفصیلات عالمی میڈیا میں ریلیز ہوئیں تو پاکستان کو سخت مایوسی ہوئی کہ آئی ایم ایف کی ساری کارروائی میں پاکستان کے لیے قرضے کی منظوری تو کیا اس پر بحث کرنا بھی ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ اس کو یوں سمجھا گیا کہ آئی ایم ایف نے معاہدے کی توثیق سے انکار کر دیا ہے جس سے گزشتہ 3 ماہ سے مستحکم رہنے والے پاکستانی روپے کے پیروں سے زمین سرکتی نظر آرہی ہے جو ایک ہی دن میں 18 پیسے گر گیا ہے جو اس مالی سال کی پہلی بڑی گراوٹ ہے۔ بے یقینی نے ایک بار پھر پوری معاشی کارروائی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
دیکھا جائے تو آئی ایم ایف پاکستانی حکمرانوں کے لیے وہ سنگ دل محبوب ہے جو ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتا ہے۔ اس دفعہ ان کی ناراضگی کی کچھ جائز وجوہات سامنے آ رہی ہیں حکومت کو اندر سے پتہ ہے مگر وہ عوام کو نہیں بتا رہے۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سربراہ نے دنیا کو بتایا ہے کہ موجودہ مالی سال میں پاکستان نے قرضوں کی واپسی کی مد میں 26 ارب ڈالر سے زیادہ کی پہاڑ جیسی رقم واپس کرنی ہے۔ جس پر آئی ایم ایف نے شرط لگا دی کہ آپ یہ 26 ارب اس سال واپس کرنے کے بجائے جس جس کا دینا ہے انہیں اس بات پر رضا مند کریں کہ یہ پیسے ایک سال بعد دیئے جائیں گے جسے معاشی زبان میں قرضہ رول اوور Roll-over کرنا کہتے ہیں۔
اس 26 ارب میں 16 ارب چائنا کے تھے باقی 10 ارب سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور قطر کا حصہ تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف چائنا کے ساتھ تعلقات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں حکمران کوئی بھی ہو یہاں مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ ٹاپ لیول پر تعلقات بنا کر قواعد کو بائی پاس کر کے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کیا جاتا ہے اب عرب بادشاہوں کے ساتھ تو یہ ممکن ہے مگر دیگر ممالک اس کو مروجہ پروٹوکول سے متصادم سمجھتے ہیں آپ کو یاد ہو گا جون میں جب آئی ایم ایف وفد کی آمد آمد تھی تو وزیراعظم شہباز شریف کئی دن کے دورے پر آناً فاناً بیجنگ پہنچ گئے تھے ۔ سب حیران تھے کہ بات کیا ہے۔ شہباز شریف آئی ایم ایف کو سرپرائز دینا چاہتے تھے کہ چینی صدر ژی جن پنگ نے 16 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کر دیا ہے لیکن اب خبریں آ رہی ہیں کہ چینی صدر نے معذرت کر لی ان کا کہنا تھا کہ یہ قرضہ حکومت کا نہیں بلکہ چائنا کی سرمایہ کار کمپنیوں کا ہے لہٰذا آپ ان سے بات کریں شہباز شریف ذہنی طور پر اس جواب کے لیے تیار نہیں تھے۔ اب چائنا کی 60 کے قریب کمپنیوں کے CEO سے ملاقات شہباز شریف کے لیے ممکن نہیں تھی۔ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ کچھ ہفتے قبل وزیراعظم نے اپنے دورۂ چائنہ کے دوران ناقص انتظامات پر کئی اعلیٰ عہدیداروں کو ہٹا دیا تھا جس کے پیچھے دورے کا کامیاب نہ ہونا بڑی وجہ تھی۔
آئی ایم ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان پر بحث کرنے سے گریز کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں اب وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا معاملہ ستمبر میں زیربحث آئے گا۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ آئی ایم ایف کو دو اعتراضات اور بھی ہیں۔ ان کے کہنے پر پاکستان نے 30 لاکھ چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو رجسٹرڈ کرنے کا پروگرام دیا تھا جس پر اتفاق ہو گیا حکومتی بیانات بھی آ گئے مگر یہ سکیم ناکام ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ اب تک صرف 50 ہزار تاجر اور دکاندار رجسٹر ہوئے ہیں جبکہ آئی ایم ایف نے اس مد میں 300 ارب روپے وصولی کا تخمینہ لگا رکھا ہے۔
اس سے بھی دلچسپ پیش رفت پنجاب سے ہوئی ہے۔ وزیراعظم مریم نواز نے بجلی کے بلوں پر ریلیف کی مد میں ترقیاتی اخراجات سے 45 ارب نکال کر بجلی پر دو ماہ کے لیے 14 روپے فی یونٹ کے ڈسکاؤنٹ کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایم ایف کو اس پر اعتراض ہے۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ فلیٹ ڈسکاؤنٹ ہے بلا امتیاز امیر و غریب۔ آئی ایم ایف ٹارگٹڈ ریلیف کی بات کرتے ہیں دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر حکومت پنجاب کو 600 ارب روپے ٹیکسوں کے علاوہ وفاق کو قرضہ اتارنے کے لیے مہیا کرنا تھے۔ آئی ایم ایف یہ سمجھتا ہے کہ اب اس 600 میں 45 ارب کا شارٹ فال آجائے گا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر آئیء ایم ایف کے علاوہ دوسرے صوبے بھی شور مچا رہے ہیں۔ خبر ہے کہ پنجاب حکومت کو یہ مشورہ ڈپٹی وزیراعظم اسحق ڈار نے دیا تھا جن کی گزشتہ 3 بار کی وزارت خزانہ کی کارکردگی ہمیشہ متنازعہ رہی ہے۔ اسحق ڈار کا شمار ان معاشی ماہرین میں ہوتا ہے جن کی ساری پرفارمنس ہی قرضہ لینے اور قرض لی گئی رقم پر من مانی کرنے سے عبارت ہے۔ آئی ایم ایف سے 37 مہینے کی مدت معاہدہ تھی۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت میں 36 مہینے کے بعد باقی ماندہ مدت کے لیے پیپلزپارٹی کو اقتدار ملنا ہے۔ ن لیگ کی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے ذریعے اپنے Tenure کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے کہ 7 بلین سے ہم اپنے 3 سال نکال لیں گے اس کے بعد کی ہماری کوئی گارنٹی نہیں۔
یہ معاشی صورتحال ہے لیکن جب آپ حکومت کی باڈی لینگوئج دیکھیں تو لگتا ہے کہ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اپوزیشن کو خواہش کی مخصوص نشستوں کا حق حاصل نہیں جس کے لیے آئین میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد اپوزیشن پر مقدمے چلانا اور عدلیہ میں آئینی مقدمات کی بھرمار تا کہ عوامی مقدمات کے لیے وقت نہ نکال سکے جیسی ترجیحات شامل ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف مقرر کرنے کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے فیصلے کے پس پردہ محرکات کے تفصیلی بیان سے خواجہ صاحب نے پتہ نہیں کس کا سیاسی قد اونچا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جمہوریتیں اس طرح تو نہیں چلتیں۔ عوام کے لیے اس ساری صورتحال کی تصویر کشی کے لیے مرزا غالب کا شعر ہے کہ
تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبہ خوبیٔ تقدیر بھی تھا
تبصرے بند ہیں.