مستقبل کی سیاست

19

پاکستان کی سیاست میں مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی کی سیاست میں بڑی تیزی سے جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان پر ایک نظر ڈالی ہے ۔ ان میں سب سے اہم جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور اس کے متعلقہ معاملات ہیں اور خاص طور پر اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی نے جنرل فیض حمید کے اوپن ٹرائل کا جو مطالبہ کیا ہے اس پر بات کی جائے تو معاملات کافی حد تک سمجھ آ جائیں گے ۔ جنرل فیض کی گرفتاری کے فوری بعد عمران خان نے پہلے کہا کہ جنرل فیض حمید کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے پھر کہا کہ یہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اب انھوں نے مطالبہ کر دیا ہے کہ جنرل فیض کا اوپن ٹرائل کیا جائے ۔ اس مطالبہ پر سکیورٹی ذرائع نے بڑا سخت رد عمل دیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ آپ ہوتے کون ہیں ہمیں یہ مشورہ دینے والے ۔ اگر آپ کا اس معاملہ میں ٹرائل ہوا تو اوپن ہی ہو گا تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ آپ کیا کرتے اور کراتے رہے ہیں ۔ ہم یہ بات پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ خان صاحب خبط عظمت کا شکار ہیں اور وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا کہا حرف آخر ہو گا اور اس میں نہ ماننے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ۔اسی طرح کا طرز عمل انھوں نے موجودہ آرمی چیف کی تقرری کے وقت اپنایا تھا کہ انھیں نہیں بلکہ فلاں بندے کو آرمی چیف لگا دیں لیکن بار بار ٹھوکر کھانے کے باوجود بھی انھیں سمجھ نہیں آتی اور وہ ایسے مطالبات کر دیتے ہیں کہ جن کا ان کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ کورٹ مارشل کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے اور اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کچھ بتانا چاہیں تو بتا سکتے ہیں اور دوسرا آج تک ایسا نہیں ہوا کہ افواج پاکستان کے کسی بندے کا کسی ایسے معاملہ میں جس کا تعلق فوج سے ہو اس کا اوپن ٹرائل ہوا ہو ۔اسی حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ عام فوجی ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا جبکہ انٹیلی جنس ایجنسی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے یہ مدت پانچ سال ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق جنرل فیض ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے مسلسل رابطہ میں تھے اور چونکہ جنرل فیض خود دنیا کی ٹاپ سکیورٹی ایجنسی کے ہیڈ رہ چکے تھے اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں کے متعلق دوسروں سے زیادہ علم تھاتو ان کے جدید اینڈرائیڈ موبائل کے بجائے پرانے موبائل سے رابطے ہوتے تھے اور سکیورٹی ذرائع کے مطابق دونوں صاحبان سے ان کے دونوں سے موبائل حاصل کر لئے گئے ہیں اور ان کا سارا ڈیٹا نکلوایا جا رہا ہے ۔اسی نیٹ ورک کے لئے کام کرنے والے متعدد حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی بھی تحویل میں لے لئے گئے ہیں جبکہ اڈیالہ جیل کی تین خواتین کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان رابطے کے سلسلہ میں گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ خان صاحب اوپن ٹرائل کا کیوں کہہ رہے ہیں اس لئے کہ انھیں بخوبی علم ہے کہ حکومت کی قانونی ٹیم اس قدر نا اہل ہے اور پراسیکیوشن ٹیم اس حد تک نالائق ہے کہ وہ عدالت میں سائفر کیس ثابت کر سکی اور نہ ہی ٹیریان کیس کو قابل سماعت قرار دلوا سکی حالانکہ سائفر کیس میںخان صاحب کی آڈیو موجود ہے کہ جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سائفر سے کھیلیں گے اور ایک سے زائد ٹی وی انٹرویوز میں انھوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ سائفر کی ایک کاپی ان کے پاس تھی اور وہ ان سے گم گئی تھی اور جہاں تک ٹیریان کیس کاتعلق ہے تو وہ برسوں پہلے امریکہ کی عدالت میں ثابت ہو چکا ہے اور ٹیریان لندن میں جمائما خان کے پاس رہتی ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ حکومتی نا اہلی اور پراسیکیوشن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے دونوں کیس ختم ہو گئے تو اوپن ٹرائل میں جنرل فیض کا بھی پراسیکیوشن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کچھ نہیں ہونا اور وہ بری ہو جائیں گے۔ ایک تو جنرل فیض کی گرفتاری اور اس کے تسلسل میں اس پورے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی پاکستان کی مستقبل کی سیاست کا پتا دیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت عدالتی قوانین میں کچھ بڑی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے۔ جن میں ہائیکورٹ کے ججز کی عمر 62 سے 65 سال اور سپریم کورٹ کے ججز کی عمر 65 سے 68 سال کر رہی ہے۔ اس سے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مزید تین سال کے لئے چیف جسٹس رہ سکیں گے اور بہت سے لوگ کہ جو قاضی صاحب کے جانے کا انتظار کر رہے تھے اور 90 کی دہائی میں تو نعرہ لگتا تھا کہ ’’ظالمو قاضی آ رہا ہے‘‘ لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ظالمو قاضی جا رہا ہے‘‘ اور اسی بنیاد پر وہ دو ماہ میں موجودہ حکومت کے دھڑن تختہ کی باتیں کر رہے تھے بلکہ اسد قیصر صاحب نے تو دسمبر میں انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے تک کی خوش خبریاں عوام کو پہنچا دی تھیں لیکن اگر حکومت نے ججز کی عمر میں اضافہ کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیاں کیں تو یہ ساری پشین گوئیاں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔

اس کے علاوہ ایک اور انتہائی اہم Development خارجہ محاذ پر ہو رہی ہے اور حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے بے انتہا دبائو ہے اور خاص طور پر ایک دو ممالک بہت زیادہ دبائو ڈال رہے ہیں لیکن انہیں چٹا جواب دیا جا رہا ہے کہ جو آپ چاہتے ہیں وہ ممکن نہیں ہے۔ یہ سب کچھ بانی پی ٹی آئی کی مرضی و منشا کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کہ جنرل فیض کی گرفتاری اور اس کے ساتھ پورے نیٹ ورک کے ملنے کے بعد اب اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کا بھی کورٹ مارشل ہو بے شک وہ اوپن ہی ہو لیکن اس میں سزا ہونے کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا اور یہی بات عمران خان کی پریشانی کا اصل سبب ہے کیونکہ فوج اگر اپنے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا کورٹ مارشل کر سکتی ہے تو پھر عمران خان کا بھی ہو سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.