انٹرنیٹ کی گدھا چال کے عاشقوں پر اثرات

13

اِن دنوں ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی کا ذکر عام ہے۔ یعنی انٹرنیٹ تیز نہیں چلتا اور باربار رک جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کی اس سست روی کو ہم گدھا چال بھی کہہ سکتے ہیں اور انٹرنیٹ کے باربار رک جانے کو گدھے کی اَڑی کرجانا کہنا مناسب لگتا ہے۔ انٹرنیٹ کی اس گدھا چال اور باربار اس کے اَڑی کرجانے سے بقول شخصے ملکی معیشت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آن لائن کام کرنے والے افراد بھی بیروزگار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی گدھا چال اور اس کے باربار اَڑی کرنے کے باعث کئی دوسرے شعبوں میں بھی مسائل درپیش ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا میں بہت کچھ کہا اور سنا جارہا ہے لیکن آج ہم ایک ایسے طبقے کی طرف نشاندہی کریں گے جو انٹرنیٹ کی گدھا چال اور اس کے باربار اَڑی کرنے سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن بدقسمتی سے اس متاثرہ طبقے کا تذکرہ کہیں سنائی نہیں دیتا۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے انٹرنیٹ کی موجودہ گدھا چال اور باربار اَڑی کرجانے نے بہت زیادہ غمزدہ کردیا ہے۔ یہاں تک کہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی جان کے لالے پڑگئے ہیں۔ جی ہاں یہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے ملک کے طول و عرض میں پھیلے وہ عاشق ہیں جو دن رات انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے محبوب کو پھنسانے اور اپنی محبت کا یقین دلانے میں لگے رہتے تھے۔ جب سے انٹرنیٹ کی اس بیوفائی کا سلسلہ شروع ہوا یہ بیچارے عاشق گھٹنوں میں سر دے کر زاروقطار آنسو بہا رہے ہیں اور آئی ٹی منسٹری کی جان کو رو رہے ہیں۔ شاید اتنی بددعائیں بغداد کے لوگوں نے ہلاکو خان کو نہیں دی ہوں گی جتنی یہ دکھی عاشق انٹرنیٹ کے باعث حکومت وقت کو دے رہے ہیں۔ ان عاشقوں کو پٹرول بجلی وغیرہ کی مہنگائی سے کوئی غرض نہیں، ان کی دنیا تو صرف انٹرنیٹ کے ذریعے ہی قائم تھی جو اَب لُٹ پُٹ گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ان عاشقوں کے دکھ سے فائدہ اٹھاکر انہیں اپنے احتجاج میں شامل کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور ان عاشقوں کو گھیرنے کے لیے انٹرنیٹ کے نام پر پٹو ڈال رہی ہیں لیکن یہ بیچارے تو سادھو بن گئے ہیں یعنی ’’کن کپائے، مُندراں پائیاں، جوگی ناں رکھایا (کانوں میں سوراخ کرائے، بالیاں پہنی اور جوگی نام رکھا)‘‘۔ اس لیے انہیں کسی سیاسی گھن چکر کا ہوش کہاں۔ ان کی آنکھیں سہمی ہوئی ہیں، وحشت زدہ ہیں یا ویران ہوچکی ہیں۔ ان کی نظریں ہروقت موبائل فون کی سکرین پر لگی رہتی ہیں کہ جونہی انٹرنیٹ کا رابطہ بحال ہوتو وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر فوری اپنا غمزدہ محبت بھرا پیغام اپنے محبوب کو بھیج سکیں لیکن ان بیچارے عاشقوں کی امید بھری کوشش اُس وقت ان کے منہ سے نکلنے والی سسکیوں میں بدل جاتی ہے جب ان کا بھیجا ہوا دکھی میسج محبوب کو ڈلیور ہی نہیں ہوتا کیونکہ ڈلیوری سے پہلے ہی یہ پیغام سکرین پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ ’’معزز کسٹمر آپ کو یہ سہولت میسر نہیں ہے‘‘۔ جی جناب مسکرائیے نہیں یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے ذرا آگے پڑھئے۔ اگر یہ سلسلہ کچھ عرصہ یونہی جاری رہا تو انٹرنیٹ کی موجودہ گدھا چال سے تنگ آئے ہوئے عاشقوں کی بے پناہ بڑھتی تعداد کی وجہ سے ہسپتالوں میں ان کے لیے علیحدہ وارڈ مخصوص کرنے پڑجائیں گے، پاکستان میں طرح طرح کی عادتوں پر سروے کرنے والی تنظیموں کو پاکستان میں ایک نئے طبقے یعنی عاشقوں کی کمیونٹی کا پتا چلے گا اور اس سروے کو پڑھ کر کئی نئی بحثیں شروع ہو جائیں گی، ہر طرف ٹاک شوز ہوں گے، کالم لکھے جائیں گے اور خبریں چھپیں گی کہ کس کس طرح کے لوگ، کس کس عمر کے لوگ اور کس کس عہدے کے لوگ عاشقی کے راستے میں زخمی ہوکر ہسپتالوں کے اُن مخصوص وارڈوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ بات ہم نہیں کہیں گے کہ اس سروے کو پڑھ کر کتنے پردہ نشین بے پردہ ہوں گے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ ہسپتالوں میں لاچار عاشقوں کی اتنی بڑی تعداد داخل ہو جانے کے باعث حکومت کو ہیلتھ کارڈ کی طرح عاشق ہیلتھ کارڈ بھی جاری کرنا پڑ جائے گا تاکہ یہ بیچارے عاشق جو انٹرنیٹ کے باعث نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے اور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے لاغروبیمار ہوکر لاوارثوں کی طرح سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہوگئے کیونکہ انٹرنیٹ کی اس سست روی یعنی گدھا چال اور باربار اَڑی کرنے کے باعث ان عاشقوں کو ذہنی بیماریاں، بلڈ پریشر کی بیماریاں، دل کی بیماریاں اور خفیہ بیماریاں لاحق ہوچکی ہوں گی۔ ان بیچارے عاشقوں کی جیبیں تو پہلے ہی بھک سے اُڑ جانے والے فون کے مہنگے پیکیج لے لے کر خالی ہوچکی ہوں گی۔ وہ فون کے مہنگے پیکیج اس لیے لیتے رہے ہوں گے کہ شاید اس طرح انٹرنیٹ چل پڑے۔ ایسے مظلوم عاشقوں کے علاج معالجے کے لیے حکومت کا عاشق ہیلتھ کارڈ بہت مفید ثابت ہوگا ورنہ یہ کمیونٹی عاشقی کا خون تھوک تھوک کر اپنی بیماری پہلے ہسپتالوں میں پھیلائے گی پھر ہسپتالوں کے ذریعے عاشقی کے یہ جراثیم دیگر آبادیوں میں بھی پھیلتے چلے جائیں گے۔ یہ عاشق ہیلتھ کارڈ انٹرنیشنل انسانی حقوق کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا۔ حکومت اِس عاشق ہیلتھ کارڈ کو جیلوں میں موجود قیدیوں تک بھی ضرور پہنچائے۔ یہ بات بتانا ضروری ہے کہ عاشقی کا پکا گھاگ تجربہ رکھنے والے بہت آسانی سے اپنی بیماری دوسروں تک پھیلا سکتے ہیں اور تھوڑے کو بہت سمجھنا چاہئے۔ اس لیے یہ نہ ہو کہ کسی سٹیج پر جاکر حکومت کو انٹرنیٹ کے باعث عاشقوں کی اس بیماری کو پینڈیمک یا وبائی بیماری قرار دینا پڑے اور اس مہم میں کئی ملکی و غیرملکی این جی اوز بھی شامل ہو جائیں جسے ہمارا دفترخارجہ غیرملکی مداخلت کہنا شروع کردے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک مرتبہ پھر پورے ملک کا لاک ڈائون کی کیفیت میں جانے کا خطرہ ہے۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ اِس مرتبہ عاشقی والے لاک ڈائون کے سلسلے میں کورونا لاک ڈائون کی طرح کھربوں روپے کی انٹرنیشنل امداد نہیں ملے گی۔ ذرا سوچئے کہ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ اس لئے وزیر مملکت شزہ فاطمہ صاحبہ، امین الحق صاحب اور چیئرمین پی ٹی اے صاحب سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ انٹرنیٹ کی گدھا چال کو جلد سے جلد گھڑ چال میں بدلیں تاکہ گدھے بھی گھوڑوں کی طرح چلنے کی کوشش کریں۔

تبصرے بند ہیں.