بے ”گور“ وکفن لاشے۔۔۔۔۔۔

88

چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں، زخمیوں کی آہ بکا ہے،جو بچ گئے وہ اپنے پیاروں کے لیے دیوانہ وار تڑپ رہے ہیں، لوگ پیاروں کی لاشوں اور زخمیوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں مائیں اپنے لخت جگرکو ڈھونڈتی ہو ئی سینہ کوبی کر رہی ہیں تو بھائی بھائیوں اور بہنوں کی لاشوں سے لپٹ لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں، کسی کا بھائی شہید ہوا تو کسی کا بیٹا، کسی کا پورا خاندان اسرائیلی بربریت کی لپیٹ میں آ گیا اور دنیا 10 ماہ سے مذمتوں میں لگی ہوئی تماشا دیکھ رہی ہے بے بس مظلوم فلسطینی عورتوں اور اور بچوں کی ٹکڑے نما تصویریں اور بہتا ہوا لہوبھی عالمی ضمیرکو نہیں جھنجھوڑ سکا غزہ کھنڈر بن چکا ہے عورتیں اوربچے چلا چلا کرمسلمان ممالک سے مددکی اپیل کر رہے ہیں قابض اسرائیلی فوج اس طرح انہیں کھینچ کر لے جاتی ہے جیسے جانور ہوں بلکتے بے بس مجبور بچے اور عورتیں سسکتی رہ جاتی ہیں، فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں سے فلسطینی شہدا کی تعداد 39 ہزار 983 ہوگئی ہے جبکہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی حملوں سے 90 ہزار 727 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں،دوسری طرف دنیااپنے اپنے مفادات میں گم اپنے اپنے کھیل کھیل رہی ہے، غزہ جنگ پر امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان خفیہ اجلاس کا انکشاف ہوا ہے اور لاشوں کی سیاست پرمنصوبہ بنایا جا رہا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد کس طرح کی حکومت ہوگی؟ ممکنہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا، دوسری طرف اسرائیل اور یواے ای کی حمایت سے غزہ کے ہسپتال میں سٹار لنک سروس فعال ہوگئی۔ اس کا اعلان ایلون مسک نے اسرائیلی حکومت سے اجازت ملنے کے پانچ ماہ بعد کیا جس کی فاکس نیوز نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک خفیہ میٹنگ ہوئی ہے جس میں ممکنہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد کس طرح حکومت کی جائے گی، اس خفیہ اجلاس کا انکشاف سب سے پہلے امریکی نیوز سائیٹ Axios نے کیا تھا۔ابوظہبی اجلاس کی میزبانی یو اے ای کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید نے کی،اس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے وائٹ ہاؤس کے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک اورمحکمہ خارجہ کے سینئر پالیسی مشیر ٹام سلیوان نے شرکت کی،ملاقات متحدہ عرب امارات کی خصوصی مندوب لانا نسیبہ کی تجویز پیش کرنے کے بعد ہوئی،ابوظہبی میں ہونے والی اس ملاقات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جنگ بندی کے بار بار مطالبات کے بعد جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ کے لیے کوئی منصوبہ ترتیب دینے کے خواہاں ہیں، دسمبر میں، نیتن یاہو نے تجویز کیا تھا کہ اسرائیل کو غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہیے تاکہ حماس کی غیر عسکری کاری کو یقینی بنایا جا سکے اس پلان سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح چودھراہٹ کیلئے کھیل کھیلا جا رہا ہے ادھر ایک چین ہی ہے کہ جس نے چاہے امریکہ سے مخالفت پر ہی سہی حماس اور الفتح سمیت 14 فلسطینی دھڑوں کے درمیان موجود دوریوں کو ختم کر کے صلح کرا دی بیجنگ میں تمام دھڑوں کے درمیان تین روزہ مذاکرات کے بعد نیشنل یونٹی معاہدہ ہو گیا، تمام دھڑوں نے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں،فلسطینی دھڑوں کے درمیان ہونے والے نیشنل یونٹی معاہدے پر چینی وزیر خارجہ وانگ عی نے کہا کہ معاہدے کے نتیجے میں غزہ جنگ ختم ہونے کے بعد عبوری قومی مصالحتی حکومت بنے گی، جو نئے انتخابات تک حکومت کرے گی، انہوں نے مزید کہا کہ چین نے ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے اندرونی مصالحت کے حصول اور آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کی ہے، معاہدے کے حوالے سے حماس کے رہنما موسی ابو مرذوق کا کہنا تھا کہ ہم نے قومی اتفاق کا سفر طے کر لیا ہے اور ہم سب نے غزہ میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، موسی ابو مرذوق نے مزید کہا کہ امدادی کارروائیوں اور تباہ حال غزہ کی تعمیر نو پر تمام دھڑوں نے اتفاق کیا ہے جو کام سعودیہ اور دیگر مسلم ممالک کو کرنے تھے وہ چین کروا رہا ہے لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ فلسطینی دھڑے ایک ہو گئے ہیں جبکہ غزہ میں نسل کشی کی جا رہی ہے اور عالمی عدالتیں بھی خانہ پری کیلئے فیصلے جاری کر رہی ہیں دوسری طرف امریکہ کا بغل بچہ برطانیہ عالمی عدالت میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹ کی درخواست کو چیلنج کرنے سے دستبردار ہوگیا، برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہمارا مؤقف ہے کہ یہ عدالت کا معاملہ ہے لہٰذا وہی فیصلہ کرے گی، عالمی اور ملکی سطح پر قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی منتقلی پر یقین رکھتے ہیں،ادھرعالمی ضمیر کو جھنجوڑتے ہوئے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے مغربی ملکوں کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں غزہ میں نسل کشی کی نہیں ہم جنس پرستوں اور جانوروں کی زیادہ فکر ہے،مغربی ممالک ایک ایسی ذہنیت کو فروغ دے رہا ہے جو غلامی اور نو آبادیاتی دور کی عکاسی کرتی ہے اسرائیلی درندگی میں امریکا اور امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کی اسلحہ و دیگر حوالوں سے سرپرستی جاری رکھی ہے، غزہ کے کھنڈرات انسانیت، انسانی حقوق، امن و انصاف کے علمبرداری کے تمام دعوؤں کا مذاق اُڑا رہے ہیں، ملبوں تلے دبی انسانیت سسک سسک کر اپنی سانسیں پوری کررہی ہے لیکن اسرائیل تمام خوف سے بالاتر ظلم کے پہاڑ توڑے چلے جارہا ہے، خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک صرف مذمتوں پر گزارہ کر رہے ہیں جو عزہ کے مظلوں پر نمک پاشی ہے جبکہ اسرائیل امریکی شہ پر لبنان میں بھی جارحیت کی دھمکیاں دے رہا ہے، اسرائیل کا کوئی بھی قدم خطے میں عدم استحکام، عدم تحفظ اور جنگ کومزید بڑھا سکتا ہے،اسرائیل اس طرح کے احمقانہ رویے کے غیر متوقع نتائج اور رد عمل کا بھی ذمہ دار ہوگا کیونکہ اسرائیل نے عرب ملکوں میں جو فساد پھیلا رکھا ہے اس کے بھیانک نتائج برآمد ہونگے جارحیت روکنے کیلئے مسلم ممالک کو فیصلے کرنے ہونگے مسئلہ فلسطین امت کے آپسی جھگڑوں کی وجہ سے دب کر رہ گیا ہے اورفلسطین پر قبضہ کیلئے سازشیں ہو رہی ہیں جسے ناکام بنانا ہوگا، اقوام عالم خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.