اگست کا مہینہ آنے کو ہے اور جیسا کہ
ہماری قوم کا عمومی مزاج ”رات گئی، بات گئی“ کا ہو چکا ہے، ایسے میں اب قوم کا جذبہ آزادی خیر سے 2025ء کی چودہ اگست ہی کو جاگے گا۔ تقسیم ہند کے حوالے سے ایک مضمون پڑھنے کو ملا سوچا کہ قارئین کو بھی شریک کروں کہ آزادی کی نعمت کن پہاڑ جیسی مشکلات کا سامنا کر کے نصیب ہوئی۔
حال ہی میں معروف مؤرخ اور محقق ڈاکٹر حسن بیگ کی کتاب صدا بہ صحرا شائع ہوئی ہے۔ بنیادی طور پر کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جو گزشتہ 45 سال کے دوران مختلف مواقع پر لکھے گئے اور رسائل میں شائع بھی ہوئے۔ مضامین کا ایک حصہ ان یاداشتوں پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر حسن بیگ کے والد گرامی مرزا محمود علی بیگ مرحوم نے وقتاً فوقتاً اپنے اجداد، خاندان، رشتہ داروں اور محلے داروں کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کو بتائیں۔ ان مضامین کو پڑھ کر بیسویں صدی کی معاشرت کا اندازہ ہوتا ہے۔
تاریخ کی جو کتابیں لکھی جاتی ہیں وہ بادشاہوں کے گرد گھومتی ہیں یا پھر میدان جنگ کے واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جنھیں پڑھ کر بادشاہوں کے حالات سے تو واقفیت ہوتی ہے لیکن اس دور کے معاشرے کی حالت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ لاہور میں ہمارے بزرگ دوست مولوی عبد العزیز مرحوم جنھیں ڈاکٹر مبارک علی سے علمی عقیدت تھی (ڈاکٹر مبارک علی نے پیلسیئرٹ کے سفر نامہ ہندوستان بعنوان جہانگیر کا ہندوستان کے اردو ترجمے کا انتساب بھی ان کے نام کیا تھا) وہ بھی ہمیں بتاتے تھے کہ کسی بھی دور کے معاشرتی حالات کو جاننے کے لیے اس دور کے ان افراد کی آپ بیتی پڑھیں جو اقتدار کے ایوانوں کی بجائے عام لوگوں کے ساتھ گزر بسر کرتے تھے۔ اس حوالے سے مولوی عبدالعزیز مرحوم ہی نے مجھے کتاب ”لطف اللہ کی آپ بیتی“ کے مطالعے کی ترغیب دی، لطف اللہ فارسی کے ایک استاد تھے جو انگریزوں کو فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ کتاب کا دوسرا حصہ ڈاکٹر حسن بیگ کے اسفار، شخصی خاکوں اور علمی اور ادبی مضامین سے متعلق ہے۔
تقسیم ہند کا مضمون ان حالات اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے جن کا سامنا تقسیم کے وقت مسلمانوں کو کرنا پڑا۔ 1947ء کے ہند میں مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ حکومت تھی۔ سردار پٹیل وزیر داخلہ تھے اور انتظامی امور کے پاس تھے اور امن و امان کو قائم رکھنا بھی ان ہی کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ سردار پٹیل نے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے ہندوؤں اور سکھوں کو تیار کیا۔ ان کو کثیر تعداد میں سرکاری فیکٹریوں سے تلواریں بنوا کر فراہم کیں۔
ہندو اور سکھوں کو اجازت دی گئی کہ وہ تلوار کے ساتھ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ سکھوں کی چھوٹی کرپانوں کو بڑی تلواروں سے بدل دیا گیا۔ اس سے پہلے سکھ چھوٹی کرپانوں کو کرتے یا بنیان کے اندر رکھتے تھے یا پھر پگڑی کے اندر بالوں میں چھپا لیتے کہ کرپان ان کے مذہب کا لازمی جز تھی۔ مگر اس اجازت کے بعد یہ ہوا کہ جس سکھ کو دیکھو سائیکل پر تلوار لٹکائے جا رہا ہے۔ دفتر میں بابو کام پر آ رہا ہے تو تلوار اس کی میز پر رکھی ہے۔
مسلمانوں پر پابندی تھی کہ لکڑی بھی نہیں رکھ سکتے چاقو بھی جیب میں نہیں ہونا چاہیے۔ اکیلا مسلمان کہیں آتا جاتا مل جاتا تو سکھ اس پر حملہ کر دیتے۔ کئی مسلمان اس طرح کے حملوں میں شہید ہوئے۔ آہستہ آہستہ انفرادی حملے اجتماعی حملوں کی شکل اختیار کر گئے۔ صوبہ بہار، گڈھ مکٹیسر (صوبہ یوپی)، گوڑ گاؤں (صوبہ پنجاب)، نوا کھلی، کلکتہ، حیدرآباد اور بمبئی میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے۔ مکٹیسر میں ہندؤں کا نہان سال بہ سال ہوتا ہے، اس میں ہندو اور مسلمان شریک ہوتے تھے، حسب روایت اس سال بھی شریک تھے۔
کچھ سیلانی، کچھ دکاندار، ایک سرکس کا مالک مسلمان تھا، جن سنگھی اور سیوا سنگھی غنڈے وہاں پہنچے اور سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ ان کی دکانیں لوٹ لیں، مردوں کو جان سے مار دیا، عورتوں اور بچوں کو اغوا کیا، سرکس پر حملہ کیا، شیر کی تکہ بوٹی کردی۔ حد تو یہ ہوئی کہ دلی آ کر علانیہ اپنے شرمناک اور غیر انسانی فعل کی شیخیاں بھی بگھارتے پھرے۔ سردار پٹیل نے ان کو تحفظ دینے کی خاطر مسلمان افسروں کا تبادلہ کر دیا اور ان کی جگہ ہندوؤں اور سکھوں کو تعینات کر دیا۔
دلی میں فسادات کے لیے 5 ستمبر 1947 ء کا دن مقرر کیا گیا۔ اس سے پہلے مسلمانوں کے مکانوں پر نشانات لگا دیے گئے۔ عین جمعہ کی نماز کے وقت مسجد فتح پوری میں گڈوڈیہ مارکیٹ سے بم پھینکا گیا، اس حملے میں ایک شہادت ہوئی۔ لیکن یہ ایک اشارہ تھا، اس کے بعد محلہ محلہ، شہر شہر اور گاؤں گاؤں قتل و غارت گری شروع ہو گئی۔ جو مسلمان جاں بچا سکے وہ بے سروسامانی میں بھاگے، عورتوں اور بچوں کا اغوا کیا گیا۔ پولیس اور فوج ان کی مدد کو موجود تھی۔
جو مسلمان مقابلہ کرتا اسے پولیس گولی مار دیتی۔ نارتھ بلاک سیکریٹیریٹ میں ایک پوسٹ ماسٹر صاحب تھے۔ پنجاب کے رہنے والے تھے، نمازی پرہیزگار تھے اور پڑوسیوں اور محلے والوں سے اچھے تعلقات تھے۔ جب فساد کی خبریں آئیں تو ان کا ایک ہندو پڑوسی ان کے پاس آیا کہ آپ اپنا اثاثہ ہمارے کواٹر میں رکھ دیں اور خود بیوی بچوں کو لے کر ہمارے ہاں آجائیں۔ پوسٹ ماسٹر اور ان کے لڑکوں نے یہ ہی کیا۔ ہندو پڑوسی کا لڑکا جن سنگھی تھا، وہ بندوق لیے ہوئے آیا اور پوسٹ ماسٹر اور ان کے لڑکوں کو شہید کر دیا۔
ایک صاحب اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ پیدل جا رہے تھے، کچھ سکھ آئے اور کہا کہ ہماری بیوی کو لے کر کہاں جا رہا ہے۔ آدمی کو زد و کوب کیا اور اس کی بیوی کو لے کر بھاگ گئے۔ ایک مسلمان بچے کو پکڑا اور اپنے اسی عمر کے بچے کو کرپان دے کر اس مقابلہ کرنے کو کہا، خود چاروں طرف گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے اور مسلمان بچے کو کرپان کے وار سے شہید کر دیا۔
دلی میں جب فسادات بڑھے تو حکومت نے 72 گھنٹے کا کرفیو لگا دیا، صرف تھوڑی دیر کے لیے کرفیو کھلتا۔ کرفیو کے دوران کوئی مسلمان گھر سے نہیں نکل سکتا تھا، مگر ہند و دندناتے پھرتے تھے۔ مسلمانوں کی ایک ایک گلی میں فوج لگا دی گئی تھی۔ مسلمان گھر کی چھتوں پر بھی نہیں چڑھ سکتے تھے۔ مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کی اشیا کی بھی قلت ہو گئی۔ راشن کی دکان والے راشن لینے جاتے تو ان کو بھی مار دیا جاتا۔ ہندوؤں نے کہنا شروع کر دیا کہ سب مسلمان پاکستان جائیں، ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
یہ تو فقط چند سطری واقعات ہیں۔ ایسے ہزاروں واقعات ہیں، مگر ہمارے یہاں پاک بھارت مشترکہ ثقافت کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ تقسیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ سکھوں کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ یقیناً اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پڑوسی ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات ہونے چاہئیں اور مذہبی جذبات کا احترام بھی روا رکھا جانا چاہیے۔ لیکن کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ سرحدیں ختم ہو جانی چاہیے؟ اور اپنے وجود اور شناخت کو مٹا دینا چاہیے، جیسا کہ ہمارے یہاں ترقی پسند اور لبرل کہلائے جانے کے شوق میں مبتلا دانشوروں نے بیانیہ گھڑ رکھا ہے۔
یہ وطن عوام کی قربانیوں سے وجود میں آیا ہے، لاکھوں شہداء نے اپنے خون سے اس کی آبیاری کی ہے۔ اس کی حفاظت اس کی ترقی اور اس کی عوام کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ جاگیرداروں، وڈیروں، مذہبی پیشوائیت، سرمایہ داروں کی اقتدار اور وسائل پر اجارہ داری کو ختم ہونا چاہیے۔
تبصرے بند ہیں.