انتخابی مہم کے دوران سابق امریکی صدر گولیوں کا نشانہ بن گئے چہرے پر خون تھا کہ 20 سالہ نوجوان کے حملہ کی زد میں آئے مگر بچ نکلے، تاہم ان کا رد عمل ہمارے کپتان کی طرح ہی تھا، ٹرمپ کی صحت یابی کے بعد اصل صورت حال سامنے آئے گی، لانگ مارچ کے موقع پر واقعہ کی ہمارے کپتان نے جس طرح منظر کشی کی کہ بارہ گولیاں ان کے دائیں،بائیں سے جارہی تھی مگر کسی کو کچھ نہ ہوا سوشل میڈیا کے ناظرین نے اسے خاصا ”انجوائے“ کیا، عوامی خطاب کے دوران ایک جیسے واقعات سے دونوں کی ذہنی ساخت ایک جیسی لگتی ہے نیز اپنی اپنی ریاستوں میں مقدمات کا سامنا بھی ہے، ہمارے کپتان نے اقتدار سے محرومی اور واقعات میں امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا تھا، ہماری پریشانی یہ ہے کہ ٹرمپ اس حملہ کا ذمہ دار کس کو قرار دیں گے، وہ بذات خود سپر پاور کے صدر رہ چکے ہیں، ابھی تک یہ واضح نہیں کہ حملہ آور نے ایسا کیوں کیا، امکان ہے کہ کیپیٹل ہل پر بلوہ کرنے کا نوجوان نے اپنا غصہ نکالا ہو گا، امریکی تاریخ میں ایسا باجماعت حملہ پہلی بار ہوا تھا، تاہم ہماری نسل نو اب تلک اس”سعادت“ سے محروم چلی آرہی ہے کپتان کی اندھی تقلید کے پیرو کاروں نے قومی اداروں پر بھی اگرچہ حملہ کیا تھا قسمت مگر اپنی اپنی ہے۔
اخلاقی طور پی ٹی آئی وفد کو مسٹر ٹرمپ کی عیادت کے لئے امریکہ سدھار جانا چاہئے کیونکہ امریکی کانگریس سے تازہ تازہ قرار داد ان کے حق میں وار د ہوئی ہے، ٹرمپ پارٹی کے اراکین بھی اس میں شامل ہوں گے، اظہار ہمدردی کے لئے جانا تو بنتا ہے،نہیں معلوم اس کے بعد اخلاقی طور پر کپتان کہاں کھڑا ہو گا جس نے ایک عرصہ تک absolutely not کے نام پر قوم کو ”چونا“ لگایا، پارٹی کی حالت اس شعر کی مانند ہے،کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
اس کو اعلیٰ درجہ کی منافقت ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کی قیادت اپنی سرکار کے خاتمہ کو امریکہ کی کارستانی بتاتی ہے مگر وہاں کپتان کے فالورز پاکستان کے خلاف لابنگ میں مصروف ہیں، یہ عمل اتنا سستا بھی نہیں، ایسی حمایت کے لئے لاکھوں ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ایماندار قیادت کے ”بخار“ میں مبتلا بتائیں گے، کانگریس اراکین کو رام کرنے کے لئے ”مال“ کہاں سے آرہا ہے؟۔
یہ نان بائیڈنگ قرار داد ہے جس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں نہ ہی یہ امریکہ حکومت کو بھیجی جائے گی، ناقدین اس کو اسرائیلی،بھارت اور خلیل زادزلمے کے گروپ کی شرارت کہہ رہے ہیں۔
کانگریس کی قرار دادوں نے اپنا وزن ہمیشہ آمروں کے پلڑے ہی میں ڈالا ہے، ہمارے جمہوری لوگ انہیں ”سوٹ“ نہیں کرتے،مذہبی جماعتوں پر تو انھو ں نے بہت پہلے کراس لگا دیا، کپتان چونکہ ایک مدت تک برطانیہ کی سرمایہ دارانہ ہستی کے داماد رہے ہیں، ممکن ہے کہ کانگریس میں موجود یہودی لابی کے لوگ کپتان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوں، اس لئے بھی کہ وہ قید میں ہیں۔
اقوام متحدہ اور امریکی قرار دادوں پر بغلیں بجانے والوں کی خدمت میں عرض ہے،کہ کپتان پارٹی کے اراکین نے تو صرف ڈالر خرچ کئے ہیں، مگر ہماری قوم نے امریکہ کی لڑائیاں لڑی ہیں، اس کے باوجود پاکستان کی کھلی حمایت کرنے میں امریکی انتظامیہ نے ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیا ہے،قیام پاکستان سے لے کر اب تلک جتنے بھی حکمران آئے ہیں،انکی امریکن وفاداری غیر مشروط رہی ہے،یہ وہی امریکہ ہے کہ چین سے جس کے روابط کی ابتدا جنرل یحییٰ نے کرائی جب صدر نکسن کو پر اسرار طور پر چینی وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے بیجنگ پہنچایا،اب و ہی امریکہ سی پیک کا سخت مخالف اور خطہ میں اپنے حامی تلاش کررہا ہے۔ کانگریس کے اراکین کی بشرف نگاہ اُس مظلوم خاتون پر کیوں نہ پڑی جو امریکی قید میں بے گناہی کی سزا کاٹ رہی ہے، ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا وعدہ کرنے والے کپتان کے پیرو کار اس کے حق میں کب قرار دا د لائیں گے، کیا یہ قیدی نہیں ہے؟۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے بھی کپتان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، اس سے مفر نہیں کہ وہ دوسرے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے، مگر اس گروپ کی نظر اُس حریت پسند راہنما پر کیوں نہ پڑی جو انڈیا کی تہاڑ جیل میں 2019 سے ذلت آمیز زندگی گذار رہا ہے، یاسین ملک کو سزائے موت دلوانے کے لئے بھارتی ایجنسی ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، امریکہ، برطانیہ میں مقیم کپتان کے حامیوں کو کشمیری لیڈر کے حق میں آواز اٹھانے کا خیال کیوں نہیں آیا؟یو این او کا ورکنگ گروپ کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے بعد کشمیری نوجوانان کی صورت حال سے آگاہ نہیں جنہیں رات کی تاریکی میں بنا کسی جرم میں اُٹھا کر مار دیا،یا قید کر دیا جاتا ہے کیا یہ سیاسی قیدی نہیں، انھیں رہائی کی ضرورت نہیں یہ گروپ ایسے کشمیریوں کی رہائی کا مطالبہ کب کرے گا؟۔
کپتان کے دور میں 19غیر منتخب افراد کابینہ کے رکن بنے، انکی غالب تعداد غیر ممالک سے تھی، جو فصلی بٹیرہ ثابت ہوئے، کپتان پر برا وقت آنے پر یہ اپنی اپنی ”شہریت“ کو پیارے ہو گئے،انکی کون سی قابل قدر خدمات پاکستان کے لئے ہیں، بغیر کسی ایجنڈا کے ان کا کابینہ حصہ بننا سمجھ سے بالا تر تھا، اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل اورکا نگریس قرارداد کے پیچھے ممکن ہے یہی مہربان ہوں۔ اصولی طور پر توسیاسی مخا لفت برائے مخالفت کا کلچر آباد ہونا ہی نہیں چاہئے مگر خود کپتان کے دور میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، کانگریس اور اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے اُس وقت ایسے سیاسی قیدیوں کے حق میں آواز اٹھانا کیوں مناسب نہ سمجھا،یہ ظاہر کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
ہمیں ٹرمپ سے ہمدردی ہے، مگر ایسے سربراہ اقتدار سے محرومی کے خوف سے اپنے ہی قومی اداروں پر باجماعت حملہ آور ہوجاتے ہیں،اس سوچ اور فکر کے اعتبار سے کپتان اور ٹرمپ ”پیر بھائی“ ثابت ہوئے ہیں۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ امریکی سرکار ہو یا کانگریس بنا اپنے مفاد کے کسی کے حق میں کوئی قرارداد منظور نہیں کرتی،کپتان کے حامیوں کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی، جب انھیں پتہ چلے گا،وہ کسی کے ہاتھوں استعمال ہو ئے، گمان کیا جارہا ہے، کہ سی پیک کی بندش کے لئے ماضی میں کپتان کو انکل سام نے جس طرح چکمہ دیا، اب جبکہ سی پیک پر کام کا آغاز ہو رہا ہے، ایسی قرار دادوں سے منصوبہ کے خلاف نئی اور گہری سازش کی بو آرہی ہے۔
تبصرے بند ہیں.