میں روز صبح باغ جناح میں واقع قائد اعظم لائبریری جاتا ہوں۔جب میں ایک جگہ بیٹھے بیٹھے تھک جاتا ہوں تو ٹانگیں سیدھی کرنے کے واسطے چند منٹوں کے لیے باہر نکلتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ کئی نوجوان جوڑے باغ میں گھوم رہے ہیں۔ جونہی تعلیمی اِداروں میں چھٹیاں ہوتی ہیں، باغ کی رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ یہ جوڑے غائب ہوجاتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نوجوان جوڑے گھر سے اَپنے اَپنے تعلیمی اِدارے کے لیے نکلتے ہیں اَور پھر باغ جناح میں آکر دِل لگاتے ہیں۔ گویا تعلیمی اِداروں میں ان کا دِل نہیں لگتا۔
ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اسکول جہاں ایک بچہ اَپنی زندگی کے دس گیارہ سال گزارتا ہے، یا کالج یا یونی ورسٹی جہاں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتا ہے کیوں اَیسی جگہیں ہوگئی ہیں جہاں طالب علم کا دِل نہیں لگتا۔ وہ وہاں سے بھاگنے کی کرتا ہے۔ باغ میں بے مصرف گھومنا، کہیں بیٹھ کر یوٹیوب دیکھنا، سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنا اسے زیادہ بھاتا ہے۔ اسکول اَور کالجوں کا ماحول اَیسا کیوں نہیں ہے کہ وہاں بچوں کا دِل لگے؟
تعلیمی درس گاہ وہ جگہ ہے جہاں بچہ روزانہ کی بنیاد پر کچھ سیکھتا ہے۔ وہ سائنس ہو، مذہب ہو، اخلاق ہو، ادب ہو، زبان ہو، دِیگر علوم ہوں، بچہ علم کے ایک طلسم ہوش ربا میں ہوتا ہے۔ اساتذہ اسے نئی نئی باتیں، نئے نئے علو م سکھاتے ہیں۔ اسے بتاتے ہیں کہ معاشرہ کیا ہے، گھر کے باہر، ملک سے پرے کی دْنیا کیسی ہے، خلاؤں میں کیا ہورہا ہے، سمندر کی تہوں میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے۔ بدنصیبی سے ہمارے یہاں اَب یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے تعلیمی اِدارے کورس ختم کرانے، زیادہ سے زیادہ نمبروں کے حصول کی دِیوانی دوڑ کا حصہ بن کر اَب اَندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ بچہ کتابوں اَور کاپیوں سے لدا ہوا اسکول جاتا ہے، وہاں وہ ایک کے بعد دوسرا پیریڈ بھگتاتا ہے اَور چھٹی ہونے پر خوشی خوشی گھر چلا جاتا ہے۔ گھر جاکر وہ ہوم ورک کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اگلے دِن پھر وہی ہوتا ہے۔ اِس سارے سلسلے میں دِلچسپی، جاننے کی جستجو، کچھ کردِکھانے کی لگن، آگے بڑھنے کی جرأت دم توڑ چکی ہیں۔ اَب ایک لگی بندھی روٹین ہے جو چلی جارہی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں چھٹی جماعت میں تھا تو بھارت نے امرتسر میں دور درشن ٹی وی کا آغاز کیا۔ یہ نشریات لاہور میں بہ آسانی دیکھی جاسکتی تھیں۔ ہفتے میں دو فلمیں دکھائی جاتی تھیں اَور پورا لاہور اس وقت سنسان ہوجاتا تھا۔ ہماری کلاس کے بچوں کو ہندوؤں اَور ہندو مذہب کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔ ایک دِن کسی بچے نے اِسلامیات کے استاد سے ہندو مذہب کے متعلق سوال کرلیا۔ ہمارے استاد ملک صاحب نے پورا ایک ہفتہ لگا کر ہمیں رام چندر جی، سیتا اَور راون کی کہانی پڑھائی۔ آج کے دور میں اِس بات کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر کوئی استاد، اَور وہ بھی اِسلامیات کا استاد، کلاس میں ہندو مذہب کو پڑھانے لگ جائے تو اگر وہ جان سے نہیں بھی جاتا تو نوکری سے ضرور جائے گا۔ والدین اسکول پر دھاوا بول دیں گے کہ ہمارے بچوں کو ہندو بنایا جارہا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ یہ استاد را کا ایجنٹ ہے۔ چنانچہ اِس ماحول میں اساتذہ یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ کورس کی کتابوں تک ہی محدود رہا جائے اَور اِدھر ادھر کی کوئی بات نہ کی جائے۔
دوسری جانب ہمارا ماحول اِس طرح کا ہوگیا ہے کہ زیادہ تر وہ لوگ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں جنھیں کہیں بہتر نوکری نہیں ملتی۔ اِس شعبے میں عزت ہے اَور نہ ہی پیسہ۔ یونی ورسٹی میں تو پھر کئی لائق لوگ استاد بننا پسند کرلیتے ہیں کیونکہ وہاں آمدنی اچھی ہے لیکن اسکولوں اَور کالجوں کے حالات تو بہت ہی برے ہیں۔ وہاں ایک تھکا ہوا ماحول ہے۔ استاد پیریڈ پڑھاتا ہے اَور اَپنی راہ لیتا ہے۔ بچے کے ساتھ ذاتی تعلق، بچوں میں آگے بڑھنے کی لگن کا پیدا کرنا، انھیں نئی نئی باتیں بتانااب قصہ پارینہ ہے۔ استاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کلاس میں کچھ نہ پڑھائے یا کم از کم پڑھائے تاکہ بچے اْس سے شام کے وقت ٹیوشن پڑھیں۔ ملک میں ہر طرف شام کی کوچنگ کے اِدارے کھلے ہوئے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ بچوں کو اسکولوں اَور کالجوں میں مناسب تعلیم نہیں دی جارہی۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ بچے کا اسکول یا کالج میں دِل ہی نہیں لگتا۔ وہ اسکول یا کالج جانے کو ایک بوجھ جانتا ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے کہ آج اسکول جاؤ گے تو زیادہ تر کا جواب نفی میں ہوگا۔
اسکول وہ جگہ ہونی چاہیے جہاں جب بچہ داخل ہو تو اسے لگے کہ وہ ایک خوبصورت جگہ آگیا ہے۔ یہاں اساتذہ نہایت نرم دِل، محبت کرنے والے، بے حد لائق اَور اس کے ہمدرد ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر نئی نئی چیزیں سیکھے۔ یہ چیزیں صرف کورس سے متعلق نہ ہوں۔ اِن کا تعلق ہر اس چیز سے ہو جو دْنیا میں زندگی گزارنے کے لیے اہم ہیں۔ اْس کے اَندر زیادہ سے زیادہ جاننے کی جستجو بیدار ہو۔ علم کی نہ ختم ہونے والی پیاس اسے بے چین رکھے۔ وہ اسکول سے نکلے تو معاشرے کے لیے ایک بہتر شخص بن چکا ہو۔ہمارے ملک میں اِن خصوصیات کے حامل تعلیمی اِدارے اگرچہ موجود ہیں لیکن اْن کی تعداد دو فی صد سے زیادہ نہیں ہے اَور وہاں تعلیم بے حد مہنگی ہے۔ اِس سال گرمیوں کی چھٹیاں 27 مئی سے شروع ہوئی ہیں۔ 24مئی تعلیمی اِداروں کے کام کا آخری دِن تھا۔ اِتفاق سے اس روز جب لاہور کینٹ میں واقع ایک اسکول کی چھٹی ہوئی تو میں وہاں سے گزر رہا تھا۔ میں نے بچوں کو سڑک پر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے، مارتے، چھیڑتے ہوئے دیکھا۔ میرے آگے ایک رکشہ جارہا تھا جس میں اْس اسکول کے لڑکے اَور لڑکیاں سوار تھے۔ اْس میں سے فلیورڈ ملک کا ایک خالی ڈبہ باہر آکر سڑک پر گرا۔ اِس سے پتاچلا کہ بچوں کی کسی قسم کی کوئی تربیت نہیں ہورہی۔چنانچہ آپ کو ہمارے بچے اَور نوجوان ایک بیمقصد اِنسانوں کا ریوڑ نظر آتے ہیں۔ زِندگی میں کچھ کرنے کا اْن کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ ان کی خواہش زیادہ سے زیادہ دولت کمانے، بڑی سی کوٹھی، شاندار کار، غیرملکی دورے، سیرسپاٹے سے شروع ہوکر اِسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں اِس قسم کا کوئی بندوبست نہیں ہے کہ بچوں کو زندگی میں ایک مقصد دِیا جاسکے۔ انھیں بتایا جائے کہ زندگی نہایت خوبصورت تحفہ ہے۔ یہ دنیا میں صرف ایک بار ملتا ہے۔ اِسے بہترین اَنداز میں گزارنا ازحد ضروری ہے۔ جس معاشرے میں وہ رہ رہے ہیں اسے بہتر بنانا خود ان کے اَور ان کی آئندہ نسل کے لیے کتنا اہم ہے۔پھر یہ کہ بچے کی ذہنی استعداداَور رجحان (aptitude) کا بھی خیال رکھا جائے اَور سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکا جائے۔ دیکھا جائے کہ کون ڈاکٹر بن سکتا ہے، کس میں انجینئر بننے کے جراثیم ہیں، کون بہتر معیشت دان ثابت ہوسکتا ہے، کون آرٹسٹ بنے تو شاندار مستقبل پائے گا وغیرہ۔ جب یہ کیا جائے گا تو بچہ اپنی تعلیم میں بہت زیادہ دلچسپی لے گا۔
لیکن یہ ساری باتیں تب ہی ممکن ہیں جب ہمارے تعلیمی نظام کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا جائے۔ پرانے اَور فرسودہ نظام کو ختم کردیا جائے۔ لیکن ہم اَیسا نہیں کرتے۔ ہم نے کہا کہ بورڈ کے انٹرمیڈیٹ کے اِمتحانوں میں بے تحاشہ نقل ہوتی ہے لہٰذا یونی ورسٹی میں داخلے کے وقت ایک اَور اِمتحان لیا جانا چاہیے۔ ہم نے بورڈ کے نظام کو دْرست کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا اَور اس کے برابر ایک اَور نظام کھڑا کردِیا جیسے یہ نیا نظام آسمان سے فرشتے آکر چلائیں گے۔ یہ بھی ہمارے ملک کے لوگوں نے ہی چلانا ہے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں اِن میں بھی پرچہ آؤٹ ہوجاتا ہے، نقل دبا کر ہوتی ہے۔ اَب کیا ہم ایک تیسرا نظام لائیں گے؟ نظام تعلیم کی تبدیلی کا مطلب ہم نئی درسی کتب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہم اِس سلسلے میں بھی کئی تجربے کرچکے ہیں جو سب ہی ناکام رہے ہیں۔ اگر اَیسا نہ ہوتا تو CSS کے اِمتحان کا نتیجہ ہر سال اِتنا برا نہ نکلتا۔ قائد اعظم لائبریری میں بیشمار نوجوان مقابلے کے اِمتحان کی تیاری کے لیے آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سولہ سال کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ اِن کا حال یہ ہے کہ یہ بنیادی انگریزی گرامر، مضمون نویسی، مترادِف اَور متضاد الفاظ کی کتابیں پڑھتے نظر آتے ہیں۔ یہ اِن الفاظ کے رٹے لگاتے ہوئے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک دِن میں نے اس نوجوان سے، جو روزانہ میرے سامنے بیٹھا کرتا تھا، کہہ ہی دِیا کہ اِس طرح انگریزی زبان تمھیں قیامت تک نہیں آئے گی۔ اْس نے میرے سامنے بیٹھنا چھوڑ دِیا۔
تبصرے بند ہیں.