”بس ایک ہی مینٹل ہسپتال؟ سانوں کی“

19

عابد کمالوی کی گہری (حالانکہ میں نے گمراہ کن لکھنا تھا) باتیں جاری تھیں کہ زاہد رفیق صاحب کا فون آ گیا۔ یہ صحافی بھی لنک سے لنک نکالتے چلے جاتے ہیں جن کو آدمی بھلانا بھی چاہے یہ ایسا کرنے نہیں دیتے۔ معجون سنگھاڑا، معجون مچھلی، معجون ہلچل وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے سینئر بلکہ مشہور یا کہہ لیں کچھ بدنام صحافی اب اس طرح کی سوشل میڈیا پر اشتہاری مہمات بھی کر رہے ہیں یقینا پاپی پیٹ کی خاطر انسان ہر بلا سے ٹکر لے لیتا ہے۔ جون سے ستمبر تک تو ویسے ہی بڑے بڑے جابر بھی آپ کو حواس باختہ نظر آئیں گے کہ بجلی کے بلوں نے تہس نہس کر ڈالا ہے۔ کبھی انسان کولر، پنکھا، اے سی کو گھورتا ہے، کبھی بہتے پسینے کو۔ عابد کمالوی صاحب ہمارے ”چٹان“ کے دور کے ساتھی ہیں۔ ہم اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں پڑھتے تھے، کریسنٹ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تو بچوں کے ادب کے ساتھ ساتھ سیاسی/ نیم سیاسی ڈائری بھی لکھی اور جناب مسعود شورس نے نہایت محبت سے بہت پیارے انداز میں چھاپنا شروع کیا تو پھر بھی صحافی کہلائے۔ انہیں صفحات پر عابد کمالوی ادبی، سیاسی انٹرویوز کرتے اچھوتے موضوعات پر گفتگو کرتے پھر سرکاری نوکر اور عابد کمالوی، اچھا بھلا ادیب ”غرق“ ہو گیا۔ ماتحتوں کی حاضری چیک کرنے لگا۔ شاعری جاری رہی، شاعر نہیں مرتا۔ درمیان میں اس وقت بھی دیواروں پر لکھی وہ تحریریں / وال چاکنگ کا حوالہ ضرور دیا جاتا پھر یہ کام بس سٹاپ ریلوے اسٹیشن یہاں تک کہ ہسپتالوں اسکولوں کالجوں کے باتھ رومز میں بھی ہونے لگا۔ ہمارا ایک پٹھان دوست اکثر ایسی دیواروں پر لکھے فون نمبر پر کال کر بیٹھتا۔ ”مسکان سے بات کرواؤ“…… آگے سے جواب آتا…… ”بے شرم اب کال کی تو پولیس بلا لیں گے۔
پھر تو مت پوچھیں …… ان بے ہودہ قسم کی معجونوں کے اشتہارات میں نامور اداکار، صحافی، ڈاکٹر سب نمودار ہونے لگے۔ سلاجیت کا اشتہار کئی سنجیدہ لوگوں نے چلایا جی، جی ہاں جی ہاں …… ”پاپی پیٹ کی خاطر“ پہلے پہلے گلی محلوں میں بندر والا بندر سے کئی حرکتیں کرواتا، الٹ بازیاں لگواتا، کچھ گندے ایکشن ہوتے اور پھر وہ بندر سے کہتا…… ”پاپی پیٹ کی خاطر باؤ کو سلام کر“…… اور بندر سلام بھی کرتا اور AIDبھی طلب کرتا۔
سوشل میڈیا نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کل پرسوں ایک گانا چل رہا تھا سوشل میڈیا پر ایک اچھا بھلا خوبصورت داڑھی اور پگڑی والا جوان اک گانا نہایت سُر میں گا رہا تھا لیکن اس میں بدزبانی کرتا چلا جا رہا تھا۔ ملیحہ سید نے سب سے پہلے اس گانے کے بارے میں پوسٹ لگائی۔ ملیحہ سید عورتوں کا عابد کمالوی ہے۔ چاند رات کو چاند کی خوبصورتی پر بات بھی کرتی ہے۔ پھولوں، غزلوں، حسین نظاروں کی بات بھی کرتی ہے لیکن ایک دم سے…… ”بے غیرت…… میں چھتر اتاروں گی“…… جیسے فقرے بھی گفتگو میں ڈال لیتی ہیں اور بڑے بڑے جابر صحافی ملیحہ سید کی اس ”دھمکی“ سے گھبرا جاتے ہیں۔ خوش خوراک، خوش مزاج، خوش گفتار بھی ہیں اگر ان کا سایہ سید بدر سعید کے سر پر نہ ہوتا تو وہ ضرور اب تک ہماری بدنامی کا باعث بن چکا ہوتا۔ مجھے بھی گھورتی ہیں تو میں بات کا رخ موڑ لیتا ہوں یا محفل سے اٹھ کر واش روم جانے کی اجازت طلب کر لیتا ہوں۔
سوشل میڈیا کے اس ملتان کے گرد و نواح کے داڑھی والے شخص نے غلیظ گالیاں بھی گانے میں ڈالی ہیں اور ان لوگوں کو بار بار گندی گالی دی ہے جن کی بیٹیاں کالجوں میں پڑھتی ہیں۔ ہم بھی اس کی اس بے ہودگی کا ڈائریکٹ شکار ہو چکے ہیں۔ عوامی ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا…… ویسے آئے گا بھی نہیں۔ اب ہر بندہ ایسی بے ہودگی سن کے سہہ جاتا ہے…… کہتے ہوئے ”سانوں کی“…… یہ مردہ قوموں کی عظمت کی دلیل ہے اک گانا دس سال پہلے سنا تھا۔
ہم کالج کے پرانے دوست بیٹھے ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے۔ ہوٹل والوں نے لگا دیا……
میں میراثی، میرا پیو میراثی
میرا دادا میراثی
آپاں سارے میراثی آں
ہمارا اک دوست شرمانے لگا۔ ہم نے بھانپ لیا جب ہم نے ہلکا سا مذاق کیا تو وہ چڑنے لگا، ہم سمجھ گئے…… حالانکہ آج کے دور میں یہ کوئی معیوب چند ہی سمجھی جاتی۔حالانکہ…… میوزک کی سوجھ بوجھ رکھنے والے قابل احترام قابل عزت ہیں۔ یہ داڑھی رکھ کے پگڑی سجا کے گندی گالیاں بکنے والوں کے مقابلے میں۔
اصل میں اک سیاسی جماعت کے قائد نے پچھلے دس بارہ سالوں میں اک قوم کا ستیاناس پھیر دیا جس بات پہ ماں باپ بہن بھائی دوست احباب ڈانٹ دیتے تھے اس نے اس بات کو پسند کیا، تعریف کی اور معاشرے نے وہ گندگی اڈاپٹ کر لی۔ معاشرہ ایسی کئی گندی چیزیں اڈاپٹ کرتا چلا جا رہا ہے اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ دنیا کی سلجھی ہوئی قومیں ہمیں اڈاپٹ کرنے کو تیار نہیں ……؟
دو سو سال پہلے لاہور کا مینٹل ہسپتال معرض وجود میں آیا…… اس وقت لاہور کی آبادی دس بارہ لاکھ ہوگی۔ اس وقت لاہور کی آبادی ڈیڑھ دو کروڑ کے لگ بھگ ہے اور وہی ایک ہی مینٹل ہسپتال؟ ہے ناں بری بات آبادی کے لحاظ سے دس بارہ مینٹل ہسپتال جدید ترین ”سہولتوں“ کے ساتھ تعمیر ہو چکے ہونے چاہئیں ورنہ آپ کو مسجد کے ممبر پر، سیاست کی اسٹیج پر، اسمبلی کے فلور پر، کالج یونیورسٹی کے ڈیسک پر دس پندرہ کے بعد ایک آدھ ذہنی مریض ضرور ملے گا جس کا علاج ہونا ضروری ہے مگر ہم نے اسے سر کا تاج بنا رکھا ہے۔ ہم اس سے ڈرتے ہیں، مذہب میں مرضی کی باتیں، سیاست میں خوفناک حد تک من مرضی، کالج یونیورسٹی میں بلیک میلنگ خاص طور پر لڑکیوں پر جنسی تشدد، منہ زور گھوڑے کی طرح بڑھتا چلا جا رہا ہے اور ہم ”سانوں کی“ کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں۔
ہمارا پیارا صنوبر خان کینسر کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلا گیا…… شوکت خانم ہسپتال میں علاج ہوا، پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا لیکن انفیکشن ہو گئی اور اچھا بھلا صحت یاب ہوتا ہوتا…… صنوبر خان موت کی وادی میں چلا گیا۔
ہماری تربیت کا عمل بھی رک چکا ہے، ہر شخص دوسرے پر تنقید کر رہا ہے، ہم اپنے مذہب سے محبت نہیں کر رہے، اپنے فرقے پر جان نچھاور کر رہے ہیں۔ ہم ممبر پر چڑھے عالم، مفکر یا ذاکر کی بات محض واہ واہ کرنے کے لیے منہ اٹھائے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ایسا واعظ غور سے سننا ہوتا ہے اور اگر کبھی مقرر پٹڑی سے اترے تو اسے روکنا بھی ہوتا ہے…… مگر وہی ”سانوں کی“……؟

تبصرے بند ہیں.