ویسے قومی کرکٹ ٹیم کو گالیاں دینے والوں میں وہ بھاری بھرکم دانشور سب سے آگے ہیں جن کے اپنے مہاتما کے دور میں ڈپیارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کر کے ہزاروں پروفیشنل کرکٹرز کو بے روزگار کیا گیا، ان میں سے کسی نے سبزی کی دکان کھولی اور کسی نے موٹرسائیکل مکینک کی، کسی کا دائو لگا تو وہ ملک سے ہی باہر چلا گیا۔ کرکٹروں سے پوچھا جائے تو وہ کرکٹ کا بدترین دور تھا اور اس فیصلے کو شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد ریورس کیا۔ گالیاں دینے والوں کا اصل مسئلہ سیاسی ہے مگر یہ بات بھی درست ہے کہ کرکٹ سے محبت کرنے والوں کے دل دکھے ہیں ، آہ، بھارت سے مقابلہ ہو اور ہم ایک جیتا ہوا میچ ہار جائیں۔ میری کرکٹ کے جتنے بھی ماہرین سے بات ہو ئی ان سب کا یہی کہنا ہے کہ ٹیم میں گروپ بندی عروج پر ہے۔ پہلے صرف کراچی والوں کی گیم ہوا کرتی تھی اور اب پٹھانوں کی دھڑے بندی بھی شروع ہو چکی ہے۔ شاہین آفریدی کو کپتان بنانا غلط فیصلہ تھا اور اسے کپتانی سے ہٹانا اس سے بھی زیادہ غلط یعنی نانی نے خصم کیتا بھیڑا کیتا، کر کے چھڈ دِتا ہور بھیڑا کیتا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پاک بھارت ہائی وولٹیج میچ ہم کچھ کھلاڑیوں کی سازش کی وجہ سے ہارے جس میں سب سے پہلے عماد وسیم ہے۔
میں پوری کرکٹ ٹیم کو گالیاں دینے کے خلاف ہوں اوراس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر میرا بچہ فیل ہوجائے گا تو میں دشمن کے پاس ہونے والے بچے کو اپنا بچہ نہیں بنا لوں گاسو مجھے اپنی ٹیم کے ساتھ ہی رہنا ہے اور ان سب پر لعنت بھیجنی ہے جوچاہے اچکزئی کی بیٹی ہو یا کسی دوسرے کی، جوپاکستان کے مقابلے میں بھارت کو سپورٹ کرے، اس کے گُن گائے ۔ پوری ٹیم کو برا بھلا نہ کہنے کی دوسری وجہ سو فیصد پروفیشنل ہے اور کرکٹ کو سمجھنے والے اس کی حمایت کریں گے۔ ٹیم کی مخالفت کرنے والوں میں بہت سارے ایسے ہیں جو سیاسی تعصب سے لبریز ہیں اور وہ ٹیم کو ناکام قرار دے کر اصل میں کاکُول میں ہونے والی ٹریننگ پر سوال اٹھانا چاہتے ہیں مگر مجھے پورے یقین سے کہنا ہے کہ فوج سے تربیت کے باوجود ناکامی میں بابر اعظم کا نام بہرصورت دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلا سب سے بڑا ناکام اور نالائق کوئی دوسرا ہے۔ سیاسی بحث سے نکل کر اس منظرنامے کو دیکھیں جس میں ہماری ٹیم انڈیا کے مقابلے میں گراؤنڈ میں اتری۔ ہم امریکہ جیسی نئی ٹیم سے ہار چکے تھے مگر بعد میں پتا چلا کہ اس ورلڈ کپ میں اپ سیٹ ہو رہے ہیں سو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ میچ شروع ہونے تک دنیا بھر کے ماہرین اور جواری انڈیا کی ٹیم کو ہی فیورٹ قرار دے رہے تھے۔ پاکستان کی جیت کا مارجن کسی طور پر تیس فیصد سے زیادہ نہیں دکھایا جا رہا تھا مگر یہ پاکستان کے باؤلرز ہی تھے جنہوں نے کمال کر دکھایا اور انڈیا جیسی مضبوط بیٹنگ آرڈر رکھنے والی ٹیم کو ایک سو انیس رنز پر واپس بھیج دیا۔
اب یہاں پر عماد وسیم کا سازشی کردار سامنے آتا ہے جس نے اپنے بعدمیں آنے والوں کو بھی پھنسادیا۔ میں ابھی تک نسیم کے آنسوؤں میں پھنسا ہوا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے کھلاڑیوںکی اکثریت جیتنا چاہتی تھی مگر کچھ کالی بھیڑیں تھیں جو کالی بھڑیں بن کے لڑ گئیں۔ انڈیا کی اننگز ختم ہونے تک ہماری امیدیں آسمان تک پہنچ چکی تھیں اور یہ ہماری بیٹنگ کے پندرہویں اوور تک آسمان تک پتنگوںکی طرح اڑتی رہیں اور پھر عماد وسیم آ گیا۔ اب یہ بات ٹی ٹوئنٹی کے کسی بھی پلیئر کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ مڈل آرڈرپر رن ریٹ کو برقرار رکھنا کتنا ضروری ہے مگر یہ اس نے بہت ساری گیندیں ضائع کر دیں حالانکہ اس سے پہلے ہماری ٹیم چھ کا رن ریٹ برقرارر کھے ہوئے تھی جو آسانی سے جیت کے پاس لے جا سکتا تھا۔ عماد وسیم اگر کھیل نہیں پا رہا تھا تو اسے چاہئے تھا کہ چوکے چھکے لگانے کی کوشش کرتا۔ ایک آدھ چوکا یا چھکا لگ جاتا اور پھر وہ آؤٹ ہوکے اگلے بیٹر کو موقع دے سکتا تھا کیونکہ ہماری پاس وکٹیں موجود تھیں اور اوور صرف چار سے پانچ باقی تھے۔ ہم سب ’ نئی بات ‘کے نیوز روم میں بیٹھے ہوئے تھے اور اس تیاری میں تھے کہ پاکستان کی فتح پر ایک شاندار قسم کی لیڈسٹوری لگائیں۔ ہم خبریںبنا رہے تھے کہ پاکستان نے نریندر مودی کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد حلف کے موقعے پر شکست کی صورت میں سلامی دی ہے مگرپھر نہ وہ حالات رہے نہ جذبات۔ ماہرین کے مطابق دو سے تین کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے یقینی فتح کو شرمناک شکست میں بدلا باقی پوری ٹیم جیت کے لئے کمٹڈ تھی اوراس نے جان بھی ماری تھی۔
میں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ بارش کی وجہ سے گیند سوئنگ کر رہی تھی اور بیٹرز کے بلے پر نہیں چڑھ رہی تھی۔ جوبھی صورتحال تھی وہ عماد وسیم سے پہلے والوں کے لئے بھی تھی اور اس کے بعد والوں کے لئے بھی جنہوں نے بڑی شکست کے مارجن کو اپنی چند شاٹس کے ذریعے چھ سکور تک محدود کر دیا۔عماد اور افتحار کی
طرف سے بھرپور شاٹ کھیلنے کی کوشش تک نہیں ہوئی۔ تحقیقات ہونی چاہئیں کہ شاداب سمیت ان تینوںنے محض بابر کو ناکام بنانے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ یہ سمجھ نہیں آ سکتی کہ آخری اوورز ہوں، پانچ وکٹیں پڑی ہوں اور آپ ہارڈ ہٹنگ نہ کر رہے ہوں۔ عماد نے پانڈیا کے آخری اوور کو جس طرح کھیلا سب کے سامنے ہے اور کمنٹیٹر تک کو کہنا پڑا کہ اس کا رنز لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ شاہین تک کو رن بنانے کے لئے کریز نہیں دینا چاہتا تھایا شائد یہ سب ملے ہوئے تھے۔ ایسے میں چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے درست اعلان کیا ہے کہ ٹیم میں ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے اور یہ کہ باہر بیٹھے نئے ٹیلنٹ کو موقع دیاجائے گا۔ اصل بات ہی یہ ہے کہ جو کھلاڑی قومی ٹیم میں شامل ہوجاتے ہیں ان کے دماغ آسمان پر پہنچ جاتے ہیں ورنہ یہ گلی محلوں میں کھیلنے والے ٹکے ٹکے کے لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ان کی اہمیت ان کے کھیل سے ہے ان کی سیاست سے نہیں۔ بابراعظم کو آپ جتنا مرضی ناکام کپتان کہہ لیں مگر آپ اسے ناکام کھلاڑی نہیں کہہ سکتے۔ یہ بات دوسروں کوبھی سمجھنی ہو گی۔
مجھے پاکستان کو شرمندہ کرنے والوں سے نفرت ہے مگر میں پھر کہوں گا کہ پوری ٹیم کو گالیاں دینا صرف اور صرف سیاسی ہے ورنہ اسی ٹیم نے بھارت کے مقابلے میں میچ کو وہاں پہنچا دیا کہ جیت کا مارجن اٹھاسی فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ یہ کالی بھیڑیں تھیں جو کالی بھڑوں کی طرح لڑ گئیں۔ ہمیں ہر شعبے سے کالی بھیڑوں اور کالی بھڑوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ ان کا فائدہ ٹکے کا نہیں ہوتا مگر نقصان بہت زیادہ کر دیتی ہیں۔
تبصرے بند ہیں.