منفی سیاست کو مسترد کرنا ہو گا

34

برداشت ایک ایسا جذبہ ہے کہ جسے دنیا کے مہذب اور جمہوری معاشروں کا سنگ بنیاد سمجھا جاتاہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں دیگر جمہوری اقدار کی طرح اس کا بھی جنازہ نکل چکا ہے جو جدید تہذیب کے منظر نامے میں ایک پریشان کن رجحان ہے۔ رواداری کا یہ فقدان نہ صرف جمہوریت کے تانے بانے کمزور کر رہا ہے بلکہ تعمیری طرز حکمرانی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے بھی اہم چیلنجز پیش کررہا ہے۔

صد افسوس کہ ہمارے سیاسی کارکنان اور قائدین میں عدم برداشت کا مادہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب تو وہ اپنے مخالفین کو ساتھی شہریوں کے طور پر نہیں بلکہ شکست خوردہ دشمن کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

برداشت کے اس فقدان کا سب سے زیادہ تشویشناک مظہر سیاسی مخالفین پر مختلف نوعیت کے حملوں کا پھیلاؤ ہے۔ ناصرف زبانی حملے بلکہ مخالفین کی کردار کشی اور یہاں تک کہ جسمانی تشددہمارے سیاسی رویوں میں بہت عام ہو چکے ہیں اوراس قسم کے منفی رجحان ہمارے معاشرے پر انتہائی برے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اس قسم کے رویے نہ صرف سیاسی اداروں کی ساکھ کو مجروح کر رہے ہیں اور جمہوری عمل میں عوام کے اعتماد کو ختم کر رہے ہیں بلکہ اس کے نتیجہ میں ایک ایساجارحانہ اور زہریلا ماحول پیدا ہو رہا ہے جو ایک صحت مند معاشرے کی جڑیں بری طرح سے کھوکھلی کرتا جا رہا ہے۔

مزید براں سیاسی مخالفین پر فزیکل حملوں کا بڑھتا ہوا رجحان آنے والی نسلوں کے لیے ایک خطرناک مثال قائم کررہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہمارے نوجوان اپنے سیاسی رہنماؤں کو باعزت مکالمے میں مشغول ہونے کے بجائے نام بگاڑتے، دھمکیاں دیتے ہوئے یا مخالفین کی کردار کشی کرتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ یہی کچھ سیکھیں گے اور اسی قسم کے رویوں کی تقلید کریں گے۔

ملک کا سیاسی ماحول اگرچہ افسوسناک ہے لیکن پھر بھی امید کی جانی چاہیے کہ جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا، انہوں نے اپنے رویوں میں پختگی پیدا کی (اگرچہ ابھی بہت زیادہ بہتری کی گنجائش موجود ہے) اور پھر بات میثاق جمہوریت تک پہنچی۔ اسی طرح عمران خان کو بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور انہیں زیادہ مثبت اور جمہوری بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر معاشرے کے تمام افراد پر بھی فرض ہے کہ وہ مخالفین کے خلاف بے بنیاد منفی پراپیگنڈوں کی مذمت کریں اور سیاسی گفتگو میں رواداری، برداشت اور تہذیب کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔

عدم برداشت کی تازہ مثال پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان روف حسن پر چند نامعلوم خواجہ سراوں کی جانب سے حملہ کی ہے۔ ابھی ہم اس واقعہ کی مذمت ہی کر رہے تھے اور اس واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ عمران خان کی موجودہ اہلیہ کے سابق شوہر خاور مانیکا پر احاطہ عدالت میں کئے جانے والے حملے اور ان پر ہونے والے تشدد کی خبریں آ گئیں۔

ویسے تو یہ دونوں ہی خبریں انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہیں لیکن ان میں کچھ باتیں خاصی دلچسپ بھی ہیں۔ مثلاً روف حسن صاحب حملہ سے اگلے روز گال پر ایک انتہائی موٹی تازی بینڈیج چپکائے ہوئے روز وہیل چیر پر سوار نظر آئے لیکن ایک ہی روز بعد وہیل چیر اور موٹی بینڈیج غائب ہو گئی اور چہرے پر صرف ایک سٹکر سا رہ گیا ، ایک آدھ دن میں شائد وہ بھی نظر نہ آئے۔ روف حسن کس چیز پر سوار رہیں یا کس قسم کا علاج کروا رہے ہیں یہ تو خیر خالصتاً ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے ترجمان پر ہونے والے حملہ کے حوالہ سے پی ٹی آئی نے سینٹ ، قومی اسمبلی اور سوشل میڈیا پر تو بہت شور مچایا ہوا ہے لیکن اپنے روائتی انداز میں اس معاملہ کی تحقیقات کا مطالبہ نہیں کر رہے،جس پر ناقدین سوال کھڑے کر رہے ہیں۔
بات کریں خاور مانیکا پر حملہ کی تو ان پر حملہ آوروں کی شناخت تو خیر کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ بلکہ پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر نے تو میڈیا ٹاک میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ حملہ ان کے کارکنان نے کیا ہے۔ اس حملہ کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ خاور مانیکا نے ان کے لیڈر یعنی عمران خان کے خلاف ٖغیر مہذب گفتگو کی تھی۔ مسٹر گوہر کی جذباتی گفتگو اور اس حملہ کی توضیحات پیش کرنے سے تو یہ لگتا ہے کہ یہ حملہ انہی کے ایما پر ہی کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عدالت کے احاطہ میں قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور پھر اس حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس کی وضاحتیں پیش کرنے کے عمل سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ آئین اور قانون پر عملداری کی دعویدار جماعت پی ٹی آئی نے دراصل اپنے کارکنان کی تربیت کن بنیادوں پر کی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ بعض لوگ تو یہ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ احاطہ عدالت میں اس ہلڑ بازی کا اصل مقصد خاور مانیکا کو زدکوب کرنے سے زیادہ یہ تھا پی ٹی آئی کے بانی چیرمین کا کیس سننے والے جج صاحب اور اس معاملہ کو رپورٹ کرنے والے میڈیا کو یہ پیغام دے دیا جائے کہ ان کی مرضی کے خلاف ہونے والے کسی بھی کام کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیاسی عدم برداشت کی اس نئی لہر کے واحد ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیرمین عمران خان ہیں اور سیاست میں ان کے دوہرے معیار نوجوانوں کے لیے کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ ایک طرف تو وہ مکمل جارحانہ اور دھمکی آمیز رویہ اپنائے رکھتے ہیں تو دوسری طرف آئین اور قانون پر عملداری اور جمہوری رویوں کی بات کرتے ہیں۔ ملکی استحکام کے ذمہ دار اداروں پر چڑھائی کر کے، قومی املاک کو نقصان پہنچا کر، ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے سول نافرمانی کی کالیں دے کر اور قرضوں کے معاملات کو متاثر کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو خطوط لکھوانے جیسے کام کر نے کے بعد بھی اگر وہ ایک جمہوریت پسند اور وطن دوست ہونے کے دعویدار ہیں تو شائد ان الفاظ کا مفہوم ان کی ڈکشنری میں کچھ مختلف ہو۔

واضح رہے کہ سیاست میں عدم برداشت کا عنصر جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا بنا رہا ہے۔ اس موقع پر ہمیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اگر تو ہم واقعی جمہوریت اور اس سے متعلقہ اداروں کا فروغ اور استحکام چاہتے ہیں تو ہمیں سیاسی عمل میں مخالفین کی بے عزتی اور ان کی کردار کشی کی بھرپور انداز میں مذمت کرنی ہو گی ، منفی سیاست کو یکسر مسترد کرنا ہو گا اور افہام و تفہیم کے کلچر کو فروغ د ینے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.