بجٹ 2024-25 کی ایک جھلک

81

آئی ایم ایف ہمارے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ ہوشربا ہی نہیں بلکہ ظالمانہ نظر آ رہا ہے۔ ایک وقت تھا آئی ایم ایف ہماری طرف سے پیش کردہ اعدادوشمار پر بھروسہ کر کے ہمیں قرض جاری کر دیتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے ہمارے پیش کردہ تخمینہ جات پر اعتماد کرنا کم دیا پھر بات یہاں تک آن پہنچی کہ سول سیکرٹریٹ کی عظیم الشان عمارت میں ایک پورا فلور ہی ان کے زیراستعمال دے دیا گیا اب انہیں ہمیں بتانے، کہنے یا بیان کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ ان کے تربیت یافتہ، ان کے نظام کے منجھے ہوئے ماہرین پہلے ہی سے ہمارے معاملات دیکھ رہے ہوتے ہیں ہمارے حکمرانوں کو صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ ہمیں کتنا قرض چاہئے جہاں تک شرائط کی بات ہے تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کی میز کے دونوں طرف اسی کے نمائندے موجود ہوتے ہیں ہمارے وزیر خزانہ کون ہیں؟ ان کی تعلیم و تربیت کہاں ہوئی ہے، ان کے ساتھ اب علی پرویز ملک جیسے پڑھے لکھے اور کچھ کرنے کا عزم لئے نوجوان کو وزیر مملکت کے طور پر لگا دیا گیا ہے وہ کون ہیں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں جاری نظام معیشت کو سمجھنے اور اس کے اصولوں پر تہہ دل سے عمل کرنے والے۔ گویا جب یہ وزیر خزانہ کے ساتھ میز کے اس طرف بیٹھ کر میز کے اس طرف بیٹھے عالمی ساہوکاروں کے ساتھ معاملہ کر رہے ہوں گے تو معاملات طے ہو ہی جائیں گے ہمیں قرض مل ہی جائے گا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کے حصول کے لئے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔

ہماری وزارت خزانہ نے بتایا ہے کہ پالیسی سطح کے جاری مذاکرات کے دوران قرض کے حجم پر حتمی بات کی جائے گی اور آئی ایم ایف کے ساتھ آئندہ شرائط اور اہداف پر بات چیت کی جائے گی۔ ایف بی آر کی وصولیوں، نان ٹیکس آمدنی کے آئندہ مالی سال کے اہداف طے کئے جائیں گے۔ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اس میں کوئی عجب بات نہیں ہے لیکن عجب بات تو اب بھی ہو رہی ہے وہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ہیں آئی ایم ایف ایک قرضہ دینے والا عالمی ساہوکار ہ وہ قرض دیتے وقت اپنے قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے، قرض دار سے اپنی شرائط منواتا ہے۔ عالمی نظام معیشت کے ایک اہم آرگن کے طور پر ادارہ اس نظام سے وابستہ افراد اور اداروں کے حقوق کی بھی نگہبانی کرتا ہے۔

اس دفعہ آئی ایم ایف نے جو ہدایات جاری کی ہیں ان کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو مصنوعی طور پر کم نہ کرنا اور ایسے ہی دیگر کئی احکامات شامل ہیں۔

ایک بہت بڑی شرط، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ روپے کی موجودہ قدر کے بجائے آئندہ سال ہونے والی گراوٹ کے مطابق کیا جائے اور انہوں نے جون 2025 تک روپے کی قدر میں گراوٹ کے بارے میں بھی بتا دیا ہے کہا گیا ہے کہ جون 2025 تک روپے کی قدر میں 18 فیصد کمی ہو چکی ہو گی، گویا حفظ ماتقدم کے طور پر ابھی سے بجلی کی قیمتوں میں اس گراوٹ کو دیکھتے ہوئے اضافہ کیا جانا چاہئے۔ ویسے وہ کہتے ہیں پاور ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 30 جون 2023 تک گردشی قرضے کا حجم 2310 ارب روپے تھا جو جنوری 2024 میں بڑھ کر 2635 ارب روپے ہو گیا ہے بجلی کے ٹیرف میں ماہانہ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے باوجود گردشی قرضے کا بڑھتے ہی چلے جانا حیران کن نہیں بلکہ پریشان کن ہے۔ اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ سب سے بڑی وجہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسر کے ساتھ کئے گئے معاہدات میں شامل غیرفطری اور غیرمنصفانہ شرائط ہیں خاص طور پر کپیسٹی پیمنٹ اہم ہے یعنی ہم بجلی خریدیں یا نہ خریدیں بجلی بنانے والی کمپنی کو ایک طے کردہ رقم ادا کی جاتی رہے گی۔ یہ ایک ظالمانہ شرط ہے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے انکشاف کیا ہے کہ ایسی ہی ایک کمپنی سارا سال بند رہی اس نے بجلی کا ایک یونٹ بھی پیدا نہیں کیا اس نے 23 ارب روپے کا منافع کمایا۔ جماعت اسلامی کے امیر جھوٹ نہیں بولیں گے یہ بات انہوں نے ثبوت کے ساتھ کی ہے ویسے ان کمپنیوں کی سالانہ اکاؤنٹس رپورٹ کو دیکھ کر آسانی سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ بجلی کا ایک بھی یونٹ سپلائی کئے بغیر کمائے جانے والا منافع کہاں سے آیا ہو گا؟ عوام کی جیبوں سے۔ اب ذرا دیکھتے ہیں جو بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے اس میں سب سے زیادہ اہمیت وصولیوں میں اضافے کو دی جا رہی ہے۔ وصولیوں کے حجم کو بڑھانے کے لئے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں کو ان کی اصل اور حقیقی پیداواری لاگت اور خرید کی قیمت کے مطابق طے کیا جانا شامل ہے۔ توانائی کے گردشی قرضے کا حجم بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے کیونکہ اس شعبے میں لائن لاسز اور چوری جی بھر کر کی جاتی ہے ہمارا ترسیلی نظام بھی پرانا ہے اور مانیٹرنگ کا نظام بھی فرسودہ ہے گردشی قرضوں کو بڑھنے سے مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہو گا لیکن آئی ایم ایف کے لاگوکردہ قوانین کے مطابق بجلی کا ایک یونٹ 100 روپے تک جا سکتا ہے۔ اس طرح پیداواری لاگت کہاں جائے گی اشیا خورونوش کی قیمتیں کہاں تک جائیں گی؟ صنعتی پیداواری مصارف کہاں تک چلے جائیں گے؟ پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث ہم برآمدی مارکیٹ میں کیا مقابلہ کر سکیں گے؟ ہماری اشیا عالمی منڈی میں بِک سکیں گی؟ دوسری طرف پنشن کے خاتمے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن میں کم از کم اضافہ بھی نہیں ہونے جا رہا ہے کم از کم اضافہ تو افراط زر کی شرح کے مطابق ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس دفعہ یہ بھی نہیں ہو پائے گا۔ کیونکہ ہمارے ساہوکار کے خیالات اس حوالے سے بھی ظالمانہ اور سفاکانہ ہیں۔ بجٹ 2025 کوئی اچھی خبریں لے کر نہیں آ رہا ہے ہمارے حکمران مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کر چکے ہیں کیونکہ قرض لئے بغیر سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینا بھی ممکن نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.