ہائر ایجوکیشن مین جدت کیسے۔۔۔۔۔۔

17

دنیا کہتی ہے کہ ”ہمارا کچھ نہیں ہو سکتا!“ ”یہ قوم خود نہیں سنبھلنا چاہتی“، یا یہ بھی سنا جاتا ہے کہ اس ملک میں ٹیلنٹ تو بہت ہے مگر اس کا استعمال نہیں کیا جاتا، کوئی ہمارے بارے میں ایسی رائے کیوں رکھتا ہے؟ اس کا تو علم نہیں مگر ہمارے ہر کام میں بدعنوانی، بے ترتیبی، منافقت، دو نمبری، خود غرضی، خود نمائی یا خود فریبی کا عنصر ضرور ہوتا ہے۔ مثلاً ہم ہر چیز میں سیاسی، مالی اور معاشی فائدہ دیکھنے کے عادی ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق 95 فیصد افراد کی نظر سب سے پہلے اپنے فائدے کی طرف جاتی ہے، کہ اُسے اس کام سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ آپ بطور قوم دیکھ لیں ہمیں جب تک کسی کام میں اجتماعی فائدے کے بجائے ذاتی فائدہ نظر نہ آئے ہم وہ کام کرتے ہی نہیں! پھر ہمار ے ملک کا ہر ادارہ بھی اسی طرح چل رہا ہے، خاص طور پر انتہائی حساس اور ضروری شعبہ محکمہ تعلیم کو دیکھ لیں کہ ہم کس طرح اس شعبے کے ساتھ غیر سنجیدگی کے ساتھ کھلواڑ کر تے آئے ہیں، اس کا اندازہ ملک میں موجود تعلیمی نظام کو دیکھ کر بخوبی ہو سکتا ہے۔۔۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہم دنیا کی جدید تعلیم سے اب بھی 60 سال پیچھے ہیں۔ خیر ویسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں بھی تعلیم کے فروغ کے لیے کوئی تھنک ٹینک بنایا جاتا، جو اس شعبے کو تواتر کے ساتھ لے کر چلتا، مگر یہاں کسی نے تعلیم کے شعبے کو کبھی سنجیدگی سے ہی نہیں لیا۔ اسی پر بات کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے ہماری ملاقات ایچ ای سی پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر سے ہوئی، ویسے وہ دیکھتے تو ہائر ایجوکیشن کو ہیں مگر وہ تعلیمی شعبے میں اس قدر مہارت اور تجربہ رکھتے ہیں کہ اگر وسائل میسر ہوں تو وہ تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں بھی لا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد منیر اس سے قبل جھنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، آپ پنجاب یونیورسٹی کیمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے گریجوایٹ ہیں، جبکہ پنجاب یونیورسٹی کول ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں، ڈاکٹر شاہد منیر کنٹرولر امتحانات پنجاب یونیورسٹی بھی تعینات رہے جبکہ یونیورسٹی آف سرگودھا اور یونیورسٹی آف میانوالی کے وائس چانسلر کی اضافی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر شاہد منیر نے یونیورسٹی آف لیڈز برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی۔ تبھی میں نے کہا کہ وہ ایجوکیشن کا ایک منبع ہیں جہاں سے روشنی کی کرنیں نکلتی ہیں۔ ہم نے اُن سے پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے پوچھا تو اُنہوں نے سیر حاصل گفتگو کی، جس کے بارے میں بعد میں بات کروں گی، مگر اُس سے پہلے اگر ہم ایچ ای سی کی بات کریں تو پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان میں حصولِ اعلیٰ تعلیم کا بنیادی منتظم اور معاون ادارہ ہے۔ اِس کا بنیادی مقصد اور ذمہ داری پاکستانی جامعات کی تجدید ہے تاکہ انہیں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق و تعمیر کا مرکز بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن (PHEC) اعلیٰ تعلیم کے محکمے (پنجاب، پاکستان) کا ایک خود مختار ادارہ ہے۔ PHEC کے کام پنجاب میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا اور اعلیٰ تعلیمی اداروں (HEIs) کی پہچان ہے۔ یہ 2015 میں قائم کیا گیا تھا۔ اکتوبر 2014 میں پی ایچ ای سی آرڈیننس کی منظوری دی گئی تھی اور جنوری 2015 میں ”پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن ایکٹ 2014“ منظور کیا گیا تھا۔ ہم نے اُن سے کئی موضوعات پر گفتگو کی، جس پر انہوں نے بتایا کہ ہم تعلیم کے میدان میں اُسی وقت ترقی کر سکتے ہیں، جب ارباب اختیار اس حوالے سے سنجیدہ ہوں، اُنہوں نے کہا کہ ہمیں ترقی کا خواب پورا کرنے کے لیے محنت کرنا ہو گی، اس محنت میں طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ تینوں کی محنت درکار ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہم ملک میں تعلیم کی بہتری چاہتے ہیں تو تمام جامعات کے وائس چانسلرز کو ایک چھت تلے جمع کرنا ہو گا۔ ایسی سفارشات مرتب کرنا ہوں گی جس سے ہم تعلیمی ترقی کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے انہی وسائل پر اکتفا کرنا ہو گا۔ ورنہ ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انہوں نے کہ ہماری جامعات عالمی رینکنگ میں اس لیے مقام نہیں بنا سکیں، کیوں کہ ان میں ریسرچ ورک کمزور ہے، اگر آپ کا ریسرچ ورک مضبوط ہو تو پھر دنیا آپ کی ریسرچ سے فائدہ اُٹھاتی ہے، اور پھر آپ کی قدر بھی کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے خالصتاً اپنے وسائل کو دیکھتے ہوئے محنت کرنا ہو گی، اساتذہ کی کپیسٹی بلڈنگ کرنا ہو گی، طلبا کو Motivate کرنا ہو گا، انہیں بتانا ہو گا کہ وہ کونسا راستہ اختیار کریں جس سے وہ آگے بڑھ سکیں۔ انہوں نے پاکستان میں یکساں تعلیم کے حوالے سے بتایا کہ میری یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان میں یکساں نظام تعلیم رائج ہو، لیکن اس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ مل بیٹھنا ہو گا، ویسے یہ چیز مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں ہے۔ انہوں نے میڈیا کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں کہ تعلیم کو بڑھاوا دینے کے لیے میڈیا کو کردار ادا کرنا ہو گا، اگر میڈیا جامعات کے بارے میں فیک نیوز کا شکار ہو گا تو طلبہ اور والدین کا تعلیمی اداروں کے بارے میں اعتماد ختم ہو جائے گا۔ اس لیے اُنہیں تصدیق کے بعد کسی بھی جامعات کے بارے میں خبر کو نشر کرنا چاہیے۔ انہوں نے طلبہ کو گریجوایشن کے بعد جاب مارکیٹ کے چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے کہا کہ اس وقت جاب مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان ہے، تمام جامعات کو اس پر ورکنگ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر اُس کا طالب علم مارکیٹ میں جاب حاصل نہیں کر سکا، تو اس کی آخر کیا وجہ ہو گی؟ اس حوالے سے حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس پر مستقل بنیادوں پر کام کرے تا کہ ہمارے نوجوان بھی اس معاشرے کا اہم رکن بن کر پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ اُنہوں نے کہا، جس پر ہم خاصے متفکر ہوئے کہ واقعی پاکستان میں ایجوکیشن پر بہت سا کام ہونا ابھی باقی ہے۔ اُمید ہے، ایسے لوگ اگر ہمارے درمیان اور پاکستان میں موجود رہیں گے تو پھر اُمید باندھی جا سکتی ہے کہ پاکستان تعلیم کے میدان میں جلد ترقی کرے گا! (ان شاء اللہ)

تبصرے بند ہیں.