ایک وقت تھا کسی ملک کو فتح کرنے کے لیے جنگوں میں تلواریں، تیر اور گھوڑے استعمال ہوتے تھے پھر آہستہ آہستہ ترقی ہوتی گئی جہاز بنے اور آخر کار ہیرو شیما اور ناگاساکی کے اوپر ایٹم بم گرائے گئے، اس کے ساتھ ہی فتوحات کے لیے جنگوں کے طریقہ کار بدلے ایٹم بم گرانے کے بجائے معاشی جنگ کا آغاز ہوا، طاقتور ممالک دوسرے ممالک کی معیشت کو اتنا کمزور کر دیتے ہیں جس سے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ہر حکم کی تابعداری ان پر فرض ہو جاتی ہے اور غلامی کا طوق ان کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے، کچھ ایسی ہی صورتحال ہماری ہے اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے نااہل قیادت، کرپشن، تعلیم کی کمی، جاگیرداری وغیرہ وغیرہ۔ آج کا موضوع تنقید نہیں بلکہ معیشت کی بحالی کے وہ چودہ نکات ہیں جس پر ہم بات کریں گے اس سے پہلے موجودہ معاشی صورتحال پیش کرنا ضروری ہے۔
رواں مالی سال حکومت کے قرضے 76 ہزار 913 ارب روپے پر پہنچنے کا امکان ہے، یہ قرضے آئندہ مالی سال میں بڑھ کر 87 ہزار 346 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ جی ڈی پی سے قرضوں کی شرح 80 فیصد ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 3.5 کے بجائے 1.8 فیصد رہے گی، مالی خسارہ جی ڈی پی کا 8 فیصد متوقع ہے، پاکستان میں 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اپریل 2024 میں درآمدات 4.7 بلین ڈالر اور برآمدات 2.3 بلین ڈالر کی ریکارڈ کی گئیں یعنی درآمدات ہماری برآمدات سے 100 فیصد زائد ہیں۔ اپریل میں مہنگائی کی شرح 17.30 فیصد رہی، شرح سود 22 فیصد ہے، بجلی، گیس، پٹرول جو معیشت کی بنیاد ہوتی یے ان کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عام صارف کے ساتھ انڈسٹری متاثر ہوئی ہے، ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال کے 11 ماہ میں 8 ہزار 125 ارب روپے اکٹھے ہوئے، ماہ جون 2024 ایک ماہ میں کیلئے 1256ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے، رواں مالی سال کا ٹیکس وصولی کا ہدف 9381 ارب روپے سے زائد ہے، ملک کی ترقی تعلیم سے شروع ہوتی ہے وزارت تعلیم نے ملک میں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد پر ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں، پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ سندھ میں 76 لاکھ 30 ہزار بچے سکول نہیں جا رہے۔
پاکستان کی آبادی کا تقریباً 63 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، 58.5 ملین افراد جن کی عمریں 20-24 سال ہیں اور 69 ملین افراد جن کی عمریں 15 سال سے کم ہیں۔ 55 فیصد نوجوان پنجاب، 23 فیصد سندھ، 14 فیصد کے پی اور 4 فیصد بلوچستان میں، جبکہ 4 فیصد گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور فاٹا میں رہتے ہیں۔ تقریباً 30 فیصد نوجوان ناخواندہ ہیں۔ 9 فیصد پیشہ ورانہ تربیت اور تکنیکی مہارت کی کمی کی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 14.3 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ موجودہ معاشی صورتحال کے بعد اب بات کریں گے معاشی بحالی کی جس کے لیے 14 نکات پر عمل کرنا ضروری ہے جو درج ذیل ہیں۔
1۔ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سٹرکچرل ریفارمز اصلاحات نافذ کرنا ضروری ہیں۔
2۔ غیر ضروری اخراجات کو کم، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع اور ٹیکس کی وصولی کو بہتر بنا کر مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنانا ہو گا۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ کرپشن کو ختم کیا جائے، بڑے جاگیرداروں جن کی زمینیں 50 ایکڑ سے زائد ہیں جو اسمبلیوں میں بھی بیٹھے ہیں ان سے ٹیکس وصول کیے جائیں۔ اگر پورا ٹیکس دیانتداری سے وصول کر لیا جائے تو وطن عزیز کو بجٹ خسارے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ہماری آمدن 3 سو فیصد تک بڑھ جائے گی۔
3۔ ہنر مند افرادی قوت تیار کرنے کے لیے تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت اور صحت کی دیکھ بھال میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی، جدید یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لانا ضروری ہے۔ دس کروڑ عوام جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں انہیں چھوٹے قرض اور فنی تعلیم دینے کی ضرورت ہے جس کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن کے پروجیکٹ بنو قابل اور اخوت فاؤنڈیشن کے ماڈل پر عمل کرنا ضروری ہے۔
4۔ ٹیکسٹائل پر انحصار کم کرنے کے لیے آئی ٹی، سیاحت اور زراعت جیسی صنعتوں کو فروغ دینا ہو گا۔ جس کے لیے انڈسٹری اور آئی ٹی کے شعبے کو جدید بنیادوں پر قائم کرنا ہو گا، اس سے آئی ٹی ایکسپورٹ 2 سے 5 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
5۔ بجلی کو سستا، زرعی شعبے کو پانی کی فراہمی، سیلاب کی تباہی سے بچنے کے لیے ضروری ہے بھاشا ڈیم، مہمند ٹیم، داسو ہائیڈرو پاور جیسے پراجیکٹس کی تعمیر جلد مکمل کی جائے۔
6۔ انفراسٹرکچر کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں، بشمول توانائی، نقل و حمل اور آبی وسائل، اسکے لیے ضروری ہے ان پراجیکٹس کے 49 فیصد شیئرز عوام کو بیچے جائیں جس سے فنڈز کی کمی کو حل کیا جا سکتا ہے۔
7۔ برآمد کنندگان کو مراعات فراہم کر کے، تجارتی سہولت کو بہتر بنا کر، انڈسٹری کے ساتھ ساتھ کسانوں کو سہولت دی جائے وہ پھل اور اجناس کو برآمد کر سکیں جس سے پہلے ہی سال 2 بلین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہو گا۔
8۔ سازگار کاروباری ماحول، ٹیکس مراعات اور سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کر کے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ ایک ہی جگہ سے تمام ضروری سرٹیفکیٹ لے سکیں، 10 سال کیلئے ٹیکس کی چھوٹ مہیا کی جائے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے کیلئے ٹیکس فری اقتصادی زون تیار کرنا ہوں گے۔
9۔ اداروں کو مضبوط، بدعنوانی کو کم اور شفافیت کو بڑھا کر گورننس کو بہتر بنانا ہو گا۔ جس سے سالانہ 5 بلین ڈالر کی آمدن ہو گی۔
10۔ غیر ضروری سرکاری اخراجات کو کم کرنے اور مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کو نافذ کریں۔ مفت بجلی کی فراہمی، بڑی گاڑیوں کے بجائے چھوٹی گاڑیوں کا استعمال، وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے اخراجات، پروٹوکول، بیرونی دوروں پر اخراجات کم کیے جائیں اس سے نچلے طبقے میں کفایت شعاری کا رجحان بڑھے گا۔
11۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سرکاری چینلز کے ذریعے ترسیلات بھیجنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے انہیں پاکستان میں سہولیات فراہم کی جائیں، کرپشن کا خاتمہ اور سکیورٹی، سیاسی رسہ کشی ختم کرنا ہو گی۔
12۔ تحقیق، ترقی اور جدید کاشتکاری کی تکنیکوں میں سرمایہ کاری کر کے زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
13۔ پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ قرض اور سود ہے آہستہ آہستہ 22 فیصد شرح سود کو کم کرتے ہوئے ختم کیا جائے جس سے سرمایہ کاری کا رجحان بڑھے گا۔ 46 ہزار 242 ارب مقامی بنکوں سے لیے گئے قرض ہیں یہ بنک حکمرانوں اور ان کے رشتہ داروں کے ہیں اس لیے 22 فیصد شرح سود سے نوازا جاتا ہے ان بنک مالکان کو سود کی ادائیگی کو ختم کرتے ہوئے انڈسٹری لگانے کی ترغیب دی جائے جس میں ٹیکس کی چھوٹ، زمینوں کی فراہمی اور مختلف مراعات دی جائیں۔
14۔ پڑوسی ممالک ایران، چین اور افغانستان کے ساتھ تجارت کو بڑھایا جائے۔
تبصرے بند ہیں.