سرکاری جامعات، حکومتیں اور عدالت عظمیٰ!!!

84

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے طلباو طالبات کو آسان اقساط پر موٹر سائیکل اور سکوٹیز دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس اسکیم کے اعلان سے طالبعلموں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وجہ یہ کہ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے حالات نہایت دگرگوں ہیں۔ خواتین کیساتھ ساتھ مردوں کو بھی دوران سفر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ خواتین اور بچیوں کو ہراسانی اور چھیڑ خانی بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ان حالات میں آسان اقساط پر ذاتی سواری کا حصول کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس اسکیم کے تمام مراحل طے پا گئے اور قرعہ اندازی کا دن قریب آن پہنچا تو لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم کی توجہ ازخود اس طرف مبذول ہو گئی۔ انہوں نے ایک سوموٹو نوٹس لیا اور پنجاب حکومت کو طالب علموں کو اسکوٹیز اور موٹر سائیکلیں دینے سے روک دیا۔ اس پابندی کی وجہ انہوں نے یہ بیان فرمائی کہ لڑکے ون ۔ویلنگ کریں گے ۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ لڑکے موٹر سائیکلیں بھگاتے ہوئے ، لڑکیوں کے کالجوں کے باہر جا پہنچیں گے اور انہیں ہراساں کریں گے۔ سوشل میڈیا کی زبان کو بھلا کون روک سکا ہے۔ اس خبر پر صارفین نے جج صاحب کے اس بیان کے حوالے سے رنگ برنگے لطیفے گھڑ لئے۔ کسی نے کہا کہ سڑکیں بنانا ہی بند کر دیں، تاکہ بائیک چل سکے، نہ کوئی موٹر سائیکل سوار کسی لڑکی کو چھیڑ سکے۔ کسی نے لکھا کہ سرے سے خواتین کی تعلیم پر ہی پابندی لگا دی جائے، نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ وغیرہ وغیرہ۔ سوشل میڈیا کی اس روائتی چھیڑ خانی سے قطع نظر، سنجیدہ حلقوں میں یہ بات دہرائی گئی کہ عدالتوں کو حکومتوں کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومتوں کو اس بات کی پوری آزادی ہونی چاہیے کہ وہ عوامی بہبود کے کسی بھی منصوبے اور اسکیم کو متعارف کروا سکیں۔ یہ دلیل قابل جواز ہے ۔ اس سے پہلے بھی یہ معاملہ قانونی ماہرین اور دانشور حلقوں میں زیر بحث رہا ہے ۔ سنجیدہ حلقے اس نقطہ نگاہ کے حامی ہیں کہ ہر حکومت اور ادارے کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

تاہم میرے پیش نظر اس وقت ایک مختلف صورتحال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کیا کیا جائے جب حکومتیں خود اپنے معاملات طے نہ کر سکیںاور فریادی یہ معاملات لے کر عدالتوں میں جا پہنچیں؟ عدالتوں کو حکومتوں کی سرزنش کرنا پڑے۔ انہیں ہدایات جاری کرنا پڑے کہ فلاں فلاں کام حکومتی ذمہ داری ہے، جس کی بروقت ادائیگی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ لہٰذا فی الفور یہ ذمہ داری ادا کی جائے۔ میر ا اشارہ جامعات میں مستقل وائس چانسلروں کی تعیناتی کیس اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کی طرف ہے۔ ملک کی سرکاری جامعات میں مستقل سربراہان کی تقرری کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں۔ انہیں منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ جس طرح پی۔آئی۔اے میں تباہی ہوئی، اسی طرح یونیورسٹیوں میں بھی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہ مسئلہ ہے جس پر مجھ سمیت بہت سوں کو تشویش ہے۔ اس تشویش کا اظہار تحریر اور تقریر کی صورت ہوتا رہتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ سے بارہا یہ درخواست کرچکے ہیں کہ جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کا عمل بر وقت مکمل ہونا چاہیے ۔ اب چیف جسٹس آف پاکستان نے اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دوران سماعت جج صاحب نے بیوروکریسی کے لتے لئے ہیں۔ صوبائی حکومتوں پر بھی تنقید کی۔ عدالت نے حکومتوں سے پیش رفت رپورٹ طلب کر لی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری حکومتوں کے پاس جامعات میں وائس چانسلروں کی بروقت تعیناتی کو یقینی بنانے کی فرصت کیونکر نہیں ہوتی۔ یہ فقط موجودہ حکومتوں کا المیہ نہیں ہے۔ ان حکومتوں کو برسر اقتدار آئے فقط چند مہینے گزرے ہیں۔ اس معاملے میں ماضی کی حکومتوں بھی مسلسل غفلت کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ تمام صوبوں میں جامعات عدم توجہی کا شکار ہیں۔ بالشت بھر وفاقی دارلحکومت کا حال بھی مختلف نہیں ۔ کمیشن کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل 154 سرکاری جامعات قائم ہیں۔ ان میں سے 66 جامعات مستقل وائس چانسلروں سے محروم ہیں۔ ان یونیورسٹیو ں میں کسی کو اضافی چارج دیا گیا ہے یا وائس چانسلر کا عہدہ خا لی پڑا ہے۔ وفاقی حکومت کے تحت چلنے والی 29 جامعات میں سے 5 میں مستقل وائس چانسلر نہیں ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی کل 32 جامعات میں سے 22، پنجاب کی 49 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 29، بلوچستان کی کل 10 یونیورسٹیوں میں سے 5، جبکہ سندھ کی 29 یونیورسٹیوں میں سے 5 مستقل وائس چانسلروں کے بغیر چل رہی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہر صوبے میں یہ مسئلہ کس قدر شدت سے حکومتی توجہ کا طلب گار ہے۔

ہماری حکومتیں بجا طور پر چاہتی ہیں کہ عدالتیں ان کے کاموں میں مداخلت نہ کریں۔ لیکن جب معاملات اس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر لوگوں کے پاس عدالتوں کا رخ کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔ بہرحال، زیر بحث عدالتی کیس میں لگتا ہے کہ معاملہ محض وائس چانسلروں کی تقرری تک محدود نہیں رہے گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے یونیورسٹیوں سے ان کے بجٹ، ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف سمیت دیگر تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔ سنتے ہیں کہ جج صاحب نے سندھ کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی بھی سرزنش کی ہے۔ دوران سماعت ان کی قانون کی تعلیم اور ڈگری کے بارے میں بھی سوال، جواب کئے۔ خیبر پختونخواہ حکومت کے وکیل کو بھی بحث کے دوران سخت ریمارکس سننا پڑے۔اس صورتحال سے کہیں بہتر تھا کہ حکومتیں اس معاملے پر کان دھر لیتیں۔ تاخیر اور تغافل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے وائس چانسلروں کی بروقت تعیناتی کا فیصلہ کرلیتیں۔ سچ یہ ہے کہ اس قضیے میں تمام حکومتوں نے اپنی داڑھی خود عدالت کے ہاتھ میں دی ہے۔ اب عدالت حکومتوں سے جو مرضی جواب طلبی کرئے۔ حکومتوں کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

تبصرے بند ہیں.