معیشت، مایوسی اور شبر زیدی

51

تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کسی بھی قوم کے انحطاط کی وجہ مایوسی ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں معیشت بحران کا شکار ہے اور تھی اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، اس پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ بحران کے کئی موضوعات ہیں جیسے نااہل حکمران، کرپشن، نااہل گورننس، معیاری تعلیم کا نہ ہونا، بیرون ملک سے سرمایہ کاری کا نہ آنا، قرض اور سودی معیشت، آفات، مہنگائی وغیرہ وغیرہ شبر زیدی جو ٹیکس کے ماہر ہیں، سابق چیئرمین ایف بی آر لیکن وہ کبھی ماہر معیشت نہیں رہے اس لیے قوم کو مایوسی کی طرف دھکیلنے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں، ہمیشہ ان کی زبان پر ہوتا ہے پاکستان تو دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اگر ماہر معاشیات بننے کا انہیں شوق ہے تو معیشت کے مسائل کو عوام کے سامنے لاتے اور وہ چہرے بے نقاب کرتے جن کی وجہ سے معیشت بحران کا شکار ہے۔ پاکستان میں دیوالیہ ہونے کا واویلا کرنے والا وہ طبقہ ہے جس کو امریکہ نے اس لیے بھیجا تاکہ چین اور روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات کو روکا جا سکے یا آئی ایم ایف کے قدموں میں گر کر بھیک مانگی جا سکے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے مطالبات منوائے جا سکیں، عمران خان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی ایک ایسے فرد کو چئیر مین ایف بی آر بنانا جس کی اپنی انکم ٹیکس چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کمپنی ہے جس کے اپنے مفادات تھے لیکن ہم بات کریں گے اس بڑے جرم کی جو شبر زیدی اکثر کرتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قوم کو مایوسی کی طرف دھکیلا گیا، جب وہ آئے اس سال پاکستان کی ایف ڈی آئی 2.15 بلین ڈالر تھی جب وہ گئے اس کے بعد 34 فیصد کمی کے ساتھ 1.42 بلین ڈالر تھی یہ کمی اس خوف کی وجہ سے تھی جو گردان وہ ہر وقت پڑھتے رہتے تھے کہ پاکستان تو دیوالیہ 6 مہینے پہلے ہو چکا تھا، ان کی گفتگو کے کچھ اقتباس حاضر خدمت ہیں۔

05 جنوری 2022: ملک کے مستقبل کے معماروں سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت میں ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی کے گزشتہ دنوں کیے گئے اِس انکشاف کہ ”پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے“ نے ملکی معیشت کے ترقی کی جانب گامزن ہونے کے حکومتی دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ شبر زیدی کے بقول ”اکائونٹنگ کی اصطلاح میں اس وقت ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور حکومت کا یہ کہنا کہ ہم نے معاشی میدان میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے، عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے“۔ یاد رہے کہ شبر زیدی پی ٹی آئی حکومت میں مئی 2019ء سے اپریل 2020ء تک چیئرمین ایف بی آر کے عہدے پر فائز رہے۔ عہدہ سنبھالنے سے قبل وہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ کمپنی فرگوسن کے سینئر پارٹنر تھے۔ اس لیے ان کے مذکورہ بیان نے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑا دی۔

19 فروری 2024: کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کے موقع سابق ایف بی آر چیئرمین شبر زیدی کا کہنا تھا کہ میری نظر میں پاکستان کی معاشی پوزیشن بہت عرصے سے بالکل کلیئر ہے پاکستان معاشی طور پر اس جگہ پہنچ گیا ہے جہاں آپ کو یہ قبول کرنا ہو گا کہ ہم معاشی طور فیل ہو چکے ہیں۔

09 جون 2022: اسلام نے ایک بہترین سوشل اکنامک سسٹم پیش کیا جس پر بات کرتے کرتے موصوف نے کہا تھا کہ دنیا میں کبھی ریاست مدینہ نام کی کوئی ریاست تھی ہی نہیں۔ آج سے چودہ سو سال پہلے جس ریاست مدینہ کی ہم بات کرتے ہیں وہ ایک قبائلی معاشرہ تھا جہاں کوئی سکول تھا نہ کالج، ہسپتال تھا نہ سڑک تھی، بجلی تھی نہ ٹیلی فون اور بینک، موصوف کہتے ہیں کہ جب وہ کسی فورم پر تقریر کرنے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ فورم میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے پچیس فیصد سے زیادہ لوگ داڑھی والے ہیں یا باپردہ خواتین ہیں تو وہ وہاں پر خطاب کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ مولوی اور باحجاب خواتین معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، لگتا ہے کہ موصوف کو نہ تو کہیں تاریخ اسلام سے کوئی واسطہ پڑا ہے اور نہ ہی اپنی محدود سوچ سے آگے نکل کر عالمگیر انقلاب کے داعی اور ان کی قائم کردہ فلاحی ریاست کے بارے میں کبھی پڑھا ہے۔ یہی بات تو پوری دنیا کے لیے باعث حیرت ہے کہ ایک قبائلی معاشرہ جہاں سکول تھا نہ کالج سڑک تھی نہ کوئی بڑی بڑی عمارتیں ہسپتال تھا نہ بجلی اور ذرائع مواصلات لیکن اس کے باوجود اسی ریاست مدینہ کے بانی نے بے سر و سامانی کی حالت میں کیسے اس وقت کی دو عظیم طاقتوں یعنی فارس اور روم کے سلطنتوں سے ٹکر لی کامیابی حاصل کی جو اس وقت کی معاشی سپر پاور تھیں۔ شبر زیدی کا علم شاید اس بارے میں ابھی نامکمل ہے کہ جس ریاست کی بنیاد فخر موجودات سرورکائنات نے آج سے چودہ سو سال پہلے رکھی تھی اور پھر اس کے مشن کو خلفائے راشدینؓ نے آگے بڑھایا اسی ریاست کے تصورات کو ادھار لے کر مغرب نے اپنی طرز حکمرانی کی بنیاد ڈالی، یہی تو سوچنے والی بات ہے جس پر شبر زیدی اور ان جیسے سوچ کے حامل روشن فکر طبقے کو سوچنا چاہئے کہ عرب کے وہ بدو جو تعلیم سے نا آشنا تھے دنیا کے معلم کیسے بن گئے؟ اسی ریاست مدینہ میں احتساب کے عمل کا یہ عالم تھا کہ ایک بندہ اٹھ کر خلیفہ وقت سے پوچھتا تھا کہ آپ کے کرتے پر ضرورت سے زیادہ کپڑا کیوں لگا ہے۔ وہی خلیفہ کہا کرتا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی مرے تو اس کے لیے عمر سے پوچھا جائیگا۔ کیا ہم شبر زیدی کے اسی مملکت میں کسی صدر یا وزیراعظم سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ جس محل میں وہ رہ رہے ہیں اس کے سوئمنگ پول کی آرائش و زیبائش پر قوم کا کتنا خرچہ ہوا تھا۔ شبر زیدی سے کوئی پوچھے کہ قوم کی معیشت کو کسی عالم دین یا باحجاب خاتون نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں گروی رکھا؟ جب آپ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین تھے آپ قومی خزانے کو ٹیکس چوروں سے وصولیاں کر کے بہتر کر سکتے تھے لیکن شبر زیدی نے ٹیکس چوروں سے وصولی کرنے کے بجائے تنخواہ دار طبقے کا اتنا زیادہ ٹیکس بڑھا دیا جو آج تک رو رہا ہے۔ چونکہ شبر زیدی سیکولر سوچ کے مالک ہیں اس لیے ایک ایسی جماعت کے بارے میں بھی جی ٹی وی کے ایک پروگرام میں زبان درازی کی جس کے کردار، دیانت داری کی دنیا گواہی دیتی ہیں جس کے سابق امیر سراج الحق متعدد بار وزیر خزانہ رہے اور صوبہ خیبر پختونخوا میں قرض اور سود کے بغیر معیشت کو چلا کر دکھایا۔ ان کا یہ رویہ اور بغیر تحقیق کے بات کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔

آخر میں چند تجاویز شبر زیدی کو دینا چاہوں گا مایوسی پھیلانے سے معیشت بہتر نہیں تباہ ہوتی ہے اگر ٹھوس دلائل ہیں تو کرپٹ مافیا کے نام قوم کے سامنے لائیں، ورنہ جس ایجنڈے کو وہ پورا کرنے آئے ہیں ملک و قوم کی معاشی تباہی یہ مناسب نہیں، میری چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے گزارش ہے اسی طرح کے ایجنٹ جنہوں نے ماضی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ مل کر کام کیا تھا ان کے خلاف سوموٹو ایکشن لیں تاکہ ملک و ملت کو محفوظ رکھا جا سکے۔

تبصرے بند ہیں.