پی آئی اے ۔ بیچنا ہی حل کیوں؟

42

سال 1998 میں لندن کے سب سے بڑے ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے ہمارا گھر ہیتھرو رن وے کی ڈائریکشن میں تھا اور آج بھی یاد ہے کہ پی آئی اے کے بوئنگ 747 کو دیکھنے کے لیے ہم سب دوست چائے بنا کر باہر صحن میں بیٹھ جاتے تھے۔ جب کبھی وقت ملتا اور موسم بہتر ہوتا ہم سب ہیتھرو وزیٹر پوائنٹ پہ پہنچ جاتے جہاں پی آئی اے اور کنکارڈ کی ہیتھرو پہ لینڈنگ یا اڑان بھرتے دیکھنا ہماری دیرینہ خواہش ہوتی۔ بعض دفعہ تو پی آئی اے کے لیے کئی کئی گھنٹے انتظار کرتے۔ لیکن انتظار کی کوفت برداشت کرنے کے باوجود پی آئی اے کو دیکھ کر دلی سکون ملتا۔ ایک انجانی سی اپنائیت اور خوشی ملتی۔ کچھ لمحوں کے لیے دیار غیر میں اکیلا پن ختم ہو جاتا۔ کیونکہ پی آئی اے سے میرا دوہرا تعلق تھا۔ وہ جہاں ہماری قومی ائیر لائن تھی وہیں میرے سگے ماموں (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے) پی آئی اے میں سینئر پائلٹ بھی تھے۔ پی آئی اے تو بلاشبہ بیرون ممالک میں ہماری پہچان تھی۔ پاکستان کی نیشنل کیرئیر، آج کی دنیا کی کئی بڑی ایئرلائنوں کی خالق۔ ایک ایسی ائیرلائن جو دنیا کے کئی ممالک میں انتہائی قیمتی اثاثوں کی مالک بھی تھی۔ جن میں سنٹرل لندن میں مشہور کرامویل ہسپتال، پیرس میں سوفیٹیل اور سکرائب ہوٹلز، نیویارک مین ہٹن میں واقع روز ویلٹ ہوٹل قابل ذکر ہیں۔ وہیں پی آئی اے دنیا کی چند ایک ائیر لائنز میں سے ایک تھی جس کی اپنے چند روٹس پہ مکمل اجارہ داری تھی۔ دنیا کی چند گنی چنی ائیر لائنز میں سے ایک، کہ جس کے پاس سالانہ بیس سے تیس لاکھ یقینی مسافر موجود تھے۔ حج اور عمرے کے لیے 5 سے 7 لاکھ سالانہ مسافر۔ مڈل ایسٹ سے پاکستانیوں کی آمدورفت کی مد میں قریب 10 سے 15 لاکھ مسافر اور یورپی ممالک سے قریب 3 سے 6 لاکھ مسافر لیکن پھر کیا ہوا۔ اسے نظر کھا گئی، کرپشن کھا گئی یا کسی خاص مخصوص ایجنڈے کے تحت اس کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔

پی آئی اے کا زوال پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوا۔ جب جیالوں کو دھڑا دھڑ نوکریاں دینے کے چکر میں اور پی آئی اے یونین پہ اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں لوگوں کو بلا میرٹ و اسامی ائیر لائن میں بھرتی کر دیا گیا۔ پوری دنیا میں ایک جہاز کے لیے مختص عملے کی تعداد 30-65 تک رکھی جاتی ہے۔ 65 سے اوپر کسی بھی قسم کی بھرتی کو ائیرلائن پہ بوجھ گردانا جاتا ہے۔ لیکن پی آئی اے کے کیس میں یہ تعداد فی جہاز 280 سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ ایک پرانا جہاز جس پہ 20-30 افراد کافی ہیں، اس پہ سیکڑوں لوگ متعین کر دیئے جائیں اور ان میں سے نوے فیصد گھر بیٹھ کر مفت کی تنخواہیں و مراعات وصول کر رہے ہوں تو اس ادارے یا ائیرلائن کا مستقبل کیا ہو گا؟ نتیجہ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا کہ چند ہی سال میں پی آئی اے منافع بخش ادارے سے خسارے میں جا پہنچی اور پھر ہر گزرتے سال کے ساتھ پی آئی اے کا خسارہ بڑھتا رہا۔ جہاز پرانے ہوتے چلے گئے اور خسارے کے باعث نئے خریدنا تو درکنار پرانوں کی دیکھ بھال بھی مشکل ہو گئی۔ پھر چند ہی سال میں پی آئی اے کے آپریشنل فلیٹ میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوئی اور یوں قابل استعمال جہازوں کی تعداد 54 سے 30 تک آن پہنچی ہے۔

بد قسمتی سے اشرافیہ کی ملکیتی پرائیویٹ ائیر لائنز کے آنے سے بھی پی آئی اے کو جان بوجھ کر رو بہ زوال کیا گیا۔ تا کہ پی آئی اے کے نفع بخش روٹس اس سے چھین کر پرائیویٹ ائیر لائنز کے حوالے کیے جائیں اور پچھلے چند سال میں یہ عمل بھی بڑی تیزی سے ہوا ہے۔ افسوسناک مقام تو یہ ہے کہ پی آئی اے کی بحالی کی طرف کسی بھی حکومت نے نا تو توجہ دی اور نا ہی اس کی تنزلی کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ بلکہ ہر حکومت نے اسے قومی خزانے پہ بوجھ سمجھا اور اس سے جان چھڑانا ہی بہتر سمجھا۔ شرم کا مقام ہے کہ کسی نے قومی پرچم کے ساتھ قومی پہچان پی آئی اے کو دوبارہ پاؤں پہ کھڑا کرنے کی خاطر خواہ کوشش بھی نا کی۔ اس پہ بھی المیہ یہ کہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر ہوا بازی نے جب بلا تحقیق قومی اسمبلی کے فلور پہ یہ اعلان کیا کہ ہمارے چالیس فیصد پائلٹوں کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں تو یورپی ممالک کی ایوی ایشن ایجنسی نے پی آئی اے کے یورپی ممالک میں آپریشنز پہ فی الفور پابندی لگا دی۔ جو آج تک برقرار تھی اور اب شہباز شریف صاحب اور اسحاق ڈار صاحب کی انتھک کوششوں سے رواں ماہ کے آخر تک ختم ہونے کی امید ہے۔ ان چار سال میں یورپی روٹس کے بند ہونے سے بھی پی آئی اے کے خسارے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ لیکن حیرانی اس وقت ہوتی ہے کہ ہزاروں بندے بھرتی کرنے والے، جعلی ڈگری کا جھوٹا بیان دینے والے، پی آئی اے کا تو بیڑا غرق کر گئے لیکن ان لوگوں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی کیوں نا ہو سکی؟ صد افسوس کہ اربوں ڈالر مالیت کے اثاثوں کی مالک ائیرلائن اب اربوں ڈالر کے خسارے کے ساتھ ایک دفعہ پھر دوبارہ بکنے کے لیے مارکیٹ میں موجود ہے۔

نجانے کیوں میرا اب بھی پختہ یقین ہے کہ اگر آج کوئی محب وطن، دیانتدار اور دبنگ شخص پی آئی اے کا چیئرمین لگا دیا جائے، اسے ایک سال کا قلیل عرصہ اور ٹارگٹ دے دیا جائے تو پی آئی اے دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑی ہو سکتی ہے اور چند سال میں دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس حاصل کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ اس چیئرمین پہ سیاسی دباؤ نا ہو اور ائیر لائن کے فائدے کی خاطر وہ سب کچھ بلا روک ٹوک کر سکے جس سے قومی ائیر لائن میں نئی روح پھونکی جا سکے۔ یقینا ارادہ پختہ ہو تو یہ معجزہ بھی رونما ہو سکتا ہے اور حکومت وقت کی ’یہی پہلی ترجیح‘ ہونی چاہیے۔ ہاں اگر حکومت کسی بھی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتی تو قومی کیریئر کو پبلک پرائیوئٹ پارٹنرشپ میں دے دیا جائے۔ جس سے وقت کے ساتھ اس کے حالات بھی بہتر ہوں اور اس کی قومی شناخت بھی باقی رہے۔

آخر میں ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ قومی کیریئر سمیت دیگر بیمار اثاثہ جات سے جان چھڑانے کے بجائے انہیں بچانے اور دوبارہ فعال کرنے پہ غور کریں۔ یہ کام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.