شعیب صدیقی حلقہ پی پی149، خدمت بالمقابل وحشت

31

سیاسی اعتبار سے وطن عزیز ہمیشہ ہی ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہا ہے جب آمریت ہو تو بھی ہیجانی کیفیت ہی ہوا کرتی ہے، آمریت کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ثابت کرے اس کو جمہور کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ جمہوریت تو نام ہی جمہور کی حکومت اور جمہور کی خدمت کا ہے۔ اس میں کوئی امیدوار کس حد تک کامیاب رہتا ہے اس کا اندازہ اس کے کام، نام اور ذکر سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کا عوام یا کم از کم جس حلقہ کی نمائندگی کرتا ہے اس میں لوگ ذکر کس طرح کرتے ہیں۔ آج کل سیاسی اعتبار سے حکومتی ایوانوں میں کیا سرگوشیاں ہیں اس سے عام آدمی تو واقف نہیں ہے مگر سامنے نظر آنے والے حالات میں نئی حکومت بھرپور کوشش اور نیک نیتی کے ساتھ عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضمنی انتخابات کا موسم بھی ہے، ملک کے دیگر حلقوں کی طرح لاہور کے حلقہ پی پی 149 میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حلقہ کے الیکشن کی بازگشت بڑی مانوس سی سنائی دی پھر فوراً خیال آیا کہ یہ تو عبدالعلیم خان کا حلقہ ہے۔ حلقہ 149 عبدالعلیم خان کے نام سے ایسا منسوب ہوا ہے کہ دوسری طرف کون ہے کوئی سوچتا ہی نہیں اور نہ ہی پوچھتا ہے کیونکہ اس حلقہ میں عبدالعلیم خان نام ہی کافی ہے۔ اب میں نے سوچا کہ وہ تو اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ کابینہ کے اہم ترین رکن ہیں۔ پرائیوٹائزیشن (نجکاری) کے وزیر ہیں، انوسٹمنٹ بورڈ چیئرمین ہیں۔ حلقہ پی پی 149 ان کی کامیاب ہونے کے بعد چھوڑی ہوئی سیٹ ہے۔ وہ اس حلقہ سے رکن پنجاب اسمبلی ہوتے آئے ہیں، اس وقت خود وفاقی وزیر ہیں اور اس خالی کردہ حلقہ میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حلقہ میں اس جگہ پر کون آدمی انتخاب لڑ رہا ہے۔ میں چونکہ ذاتی طور پر بہت عرصہ کینٹ آفیسر کالونی سرور روڈ رہائش پذیر رہا ہوں، اب تک سودا سلف میں صدر کی مارکیٹ سے لیتا ہوں، وہیں پر گاڑیوں کے مکینک چوہدری محمد علی پا محمد علی، بابر الیکٹریشن، محمد اشرف کار اے سی کے چمپئن کاریگر ہیں اور گاڑیوں کے ڈینٹر عبدالمجید عرف جیدو ڈینٹر بھی ہے۔ بہت ہی عمدہ شخصیت جج پہلوان کار پینٹنگ کا کام کرتا ہے۔ نمبر پلیٹ اور ہارڈ بورڈ وغیرہ انجم پینٹر ہے حتیٰ کہ ناصر فوٹو کاپی یہ سب لوگ اس مارکیٹ کی طاقت ہیں اور میرا ان کے ہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں نے اس حلقہ میں سیاسی حوالہ سے شعیب صدیقی جتنی نیک نامی کسی اور سیاست دان کے حصہ میں آتے نہیں سنی۔ ہر ایک کے ساتھ چلنے والا دکھ سکھ میں شریک ہونے والا ایک ایسا عوامی نمائندہ جس پر پورے حلقے کو لگتا کہ ہر فرد کا اس پر حق ہے۔ ایک شفاف اور بے داغ کردار کے مالک انسان ہیں۔ عوامی خدمت میں ان کا اتنا نام سنا ہے اور مجھے ہمیشہ لگتا جیسے یہ اس حلقہ سے ایم پی اے ہیں۔

ہر وقت دستیاب، عاجز اور اعلیٰ اخلاق و گفتار کا مالک شعیب صدیقی اگر عبدالعلیم خان جیسی باوقار شخصیت کی چھوڑی ہوئی نشست پر ان کے نمائندہ کے طور پر سامنے آئے تو یہ مثبت اعتبار سے دو آتشہ کا محاورہ محسوس ہوتا ہے۔ شعیب صدیقی کی خدمات اور عوام دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جبکہ جناب عبدالعلیم خان جن کا نام بے آسرا کا سہارا بننے سے لے کر عمران نیازی کو وزارت عظمیٰ تک پہنچانے والوں میں شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عبدالعلیم خان بانی پی ٹی آئی کی بے وفائی، محسن کشی کی فطرت کا نشانہ بنے اور عوام ایک خدمت گار نمائندہ کی حکومتی سطح پر متوقع خدمات سے محروم رہے۔ عبدالعلیم خان نے مصائب اور قید میں بھی عوامی خدمت کا سلسلہ بند نہیں کیا بلکہ بڑھا دیا۔ علیم خان فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی فری میڈیکل سروس، صاف پانی کے پلانٹ، غریبوں، بیماروں، بیواؤں، بے آسراؤں کی ماہانہ مالی امداد میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ اب یہ فاؤنڈیشن تن تنہا عبدالعلیم خان چلاتے ہیں۔ حلقے میں خصوصاً اور پورے پاکستان میں بالعموم فری میڈیکل ٹیسٹ کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں جن میں ای سی جی، الٹرا ساؤنڈ اور خون کے تمام معیاری ٹیسٹ شامل ہیں۔ فسٹ ایڈ کے سنٹرز بھی کھل رہے ہیں اور زچگی کے لیے سنٹر بھی ہیں۔ علیم خان فاؤنڈیشن ایک انتہائی قابل ذکر اور کامیاب میڈیکل سسٹم کے ساتھ کام کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کے دکھوں کا مداوا کر رہی ہے۔ سکول چاہے نجی ہیں یا سرکاری وہاں پر عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن کے فلٹر پلانٹ سے صاف پانی بچوں کو دستیاب ہو گا اور اب بھی ہے۔ ہر سکول میں معیاری بیت الخلا کا انتظام ہو رہا ہے۔ الف سے لے کر ے تک اور A سے Z تک خدمت خدمت اور خدمت ان کا منشور ہے۔ سب کا پاکستان ان کا سلوگن ہے جس کو عملی طور پر عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن نے ثابت کیا۔ 16 سے زائد علاقوں میں سیکڑوں واٹر فلٹر پلانٹس تو اپنا تعارف خود ہیں اس کی مزید تفصیلات پورے پنجاب میں بلکہ پاکستان میں ہیں سب سے بڑھ کر میڈیکل سروس تو کسی نعمت سے کم نہیں۔ اب اس حلقہ میں دوسری جانب کون ہیں، اس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہے۔ ایک طرف یعنی عبدالعلیم خان اور شعیب صدیقی کی طرف سے عوامی خدمت اعلیٰ اخلاق اور عوام دوستی آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں جبکہ دوسری جانب جو شخصیت ہے اس کو جس نے ہسپتال بنانے کے لیے جگہ دی یعنی میاں نواز شریف اور ان کے والد نے 50 کروڑ روپے اپنی جیب سے دیئے تب کل 93 کروڑ خرچ تھا گویا ہسپتال ہی بنا کر دے دیا جس کا نام شوکت خانم کینسر ہسپتال رکھا گیا اس کے بل بوتے پر سیاست کی اور اسٹیبلشمنٹ ہو یا عوام کے نمائندے (انوسٹرز) کسی سے وفا نہ کی، نہ کسی کی عزت کا خیال کیا۔ عوام ہوں، بیوروکریسی ہو، افواج ہوں (اگر اس کے ساتھ ایک تباہی کے پیج پر نہیں) دشنام، الزام، بہتان کی بوچھاڑ اس کا ہتھیار ہے۔ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا، جھوٹی خبریں، تضحیک آمیز ٹرولنگ اس کا وتیرہ ہے۔ اپنی عزت ہے نہ وہ کسی کو عزت دار سمجھتا ہے یوں سمجھ لیجئے کہ خدمت بمقابلہ انتشار ہے، نیکی بمقابلہ بدی ہے، خیر اور حق و باطل برسرپیکار ہیں۔ نرگسیت کے مرض میں مبتلا شخص جس نے نیا پاکستان کیا دینا تھا پرانے کی معاشرت اور روایات ہی دفن کر ڈالیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کاٹیجو بانی پی ٹی آئی کے بہت بڑے حامی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اب اپنی فوج ختم کر دیں کیونکہ بھارتی میڈیا کے مطابق وہ کام جو بھارت کی را ایجنسی اور فوج نہ کر سکی وہ بانی پی ٹی آئی کے کہنے پر حقائق سے بے بہرہ اس کے ورکر کر رہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے ایک طرف خدمت، سیاست، جدوجہد، مثبت سوچ ہے۔ دوسری طرف انتشار، دشنام، الزام، بہتان اور ننگا ننگا اور ننگی ننگی کی گردان ہے۔ جھوٹ ہے، فریب، دھوکہ اور ملک دشمنی ہے۔ اب یہ حلقے بلکہ پاکستان کے تمام عوام کو سوچنا ہے کہ وہ خیر کے ساتھ ہیں یا شر کے ساتھ۔ وہ ترقی کے ساتھ ہیں یا تباہی کے ساتھ۔ وہ گوگی، پنکی، بزدار اور بانی پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ہیں یا پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ویسے تو اس حلقہ میں عبدالعلیم خان کا کوئی مقابلہ نہیں اور پھر شعیب صدیقی جیسے حلیم الطبع شریف انسان کی بہت فین فالوونگ ہے۔ بظاہر کوئی مقابلہ نہیں لیکن عوام کو حلقہ میں اپنے ووٹ کے حق کو استعمال کرنا چاہئے اور اپنے شعور کا اظہار ووٹ کی پرچی کے ذریعے کرنا چاہئے۔ لوگوں کے کام ختم نہیں ہوتے کیونکہ یہاں نظام میں کمزوریاں ہیں لہٰذا ایسی معاشرت میں افراد کی وقعت بڑھ جاتی ہے۔ اس موازنہ میں اس حلقہ میں عبدالعلیم خان اور شعیب صدیقی سے بہتر کوئی دوسری چوائس نہیں۔ دوسری طرف تو کوئی ہے ہی نہیں بس ایک بندہ ہے جو اپنے آپ کو ہر قیمت پر اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے۔ چاہے اس کو ٹرمپ کی حمایت ملے یا ابی نندن کی۔ خیر و شر کے معرکہ میں عوام میرے خیال سے خیر کا چناؤ کریں گے اور جناب عبدالعلیم خان کا شعیب صدیقی آسانی سے کامیاب ہو جائے گا جو حلقے کی فلاح کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ ایک طرف ترقی، محبت، خدمت، خیر ہے۔ دوسری طرف شر، باطل، فریب ہے بلکہ وحشی کو سکون سے کیا مطلب والا قصہ ہے۔ دوسری طرف بس وحشت ہے بس وحشت۔

تبصرے بند ہیں.