قراردادِ مقاصد اور جناب وجاہت مسعود۔۔۔۔۔!

49

محترم وجاہت مسعود معروف قلمکار اور دانشور ہیں۔ ایک قومی معاصر میں ”تیشہ نظر“ کے سر نامے سے اُن کے کالم چھپتے ہیں۔ میں اُن کے کالم ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں کہ جہاں کالم کے سر نامے ”تیشہِ نظر“ کے عین مطابق تحریر میں بڑی کاٹ اور گہرا طنز موجود ہوتا ہے وہاں عالمی شہرت یافتہ ادیبوں، شاعروں، قلمکاروں اور دانشوروں کے افکارو خیالات اور تحریروں کے حوالے بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان کو سمجھنا اور اُن کے پس منظر اور پیش منظر سے آگاہ ہونا اگرچہ آسان نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود میں ان کی تحریروں کو ضرور پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ اپنی تحریروں میں آزادی اظہار رائے اور جمہوری اقدار و روایات کی تلقین ہی نہیں کرتے رہتے ہیں بلکہ پاکستان میں ان کے فقدان کا رونا بھی روتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں آمرانہ ادوار پر اُن کی سخت تنقید اور فوجی ڈکٹیٹروں پر اُن کی طعن و تشنیع اپنی جگہ خوب جچتی ہے۔ یہ سب کچھ بجا ہے لیکن ان کی تحریریں پڑھ کر بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ہی نقطہِ نظر یا معاملات و مسائل کے ایک ہی رُخ کو جو انہیں پسند ہوتا ہے سامنے لاتے ہیں اور مخالفانہ نقطہِ نظر اور معاملات و مسائل کے برسرِ زمین پس منظر اور پیش منظر کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انصاف اور غیر جانبداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ حالات و واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے پورے سیاق و سباق اور پس منظر اور پیش منظر کو پیشِ نظر رکھا جائے اور اُس دور جس کے کسی واقعہ یا معاملہ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اُس کے معروضی حالات و واقعات کا بھی تذکرہ ساتھ کیا جائے تاکہ ایک پہلو سامنے لانے کے بجائے معاملات و مسائل کے تمام پہلو سامنے آ سکیں اور پڑھنے، سننے اور جاننے والے اُن کے بارے میں غیر جانبداری سے اپنی رائے قائم کر سکیں۔

جناب وجاہت مسعود اور اُن کی تحریروں (کالموں) کے بارے میں ان تمہیدی کلمات کے بعد میں اُن کے حال ہی میں چھپنے والے ایک دو کالموں کے بارے میں اظہارِ رائے کرنا چاہوں گا۔ مارچ کے پہلے عشرے کے آخر میں چھپنے والے ایک کالم میں انہوں نے پاکستان کے آئین میں دیباچے اور بعد میں آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت اس کے متن میں شامل قراردادِ مقاصد کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ قراردادِ مقاصد جسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو منظور کیا اورجس میں تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے آئندہ نظامِ حکومت اور پاکستانی معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک لائحہ عمل کی منظوری دی گئی اُسے جناب وجاہت مسعود نے اپنے کالم میں ”آلودگی“ قرار دیتے ہوئے وطنِ عزیز کو اس سے پاک کرنے کی خواہش کا جہاں اظہار کیا ہے وہاں اُنہوں نے شہیدِ ملت لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جیسے قائدین اور اکابرین ِ ملت کو بھی اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے اہم رہنما، قائد اعظمؒ کے دستِ راست اور پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم شہید ِ ملت لیاقت علی خان کے بارے میں جناب وجاہت مسعود لکھتے ہیں کہ وہ آمرانہ سوچ کے مالک تھے اور قراردادِ مقاصد منظور کرا کر اُن کا خیال تھا کہ وہ اس طرح پاکستان میں مغلیہ دور کی تعلقہ دار نشانیوں کے غلبے کی ضمانت حاصل کر لیں گے۔ جناب وجاہت مسعود مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جن کا شمار اکابرین علمائے دیو بند میں ہوتا تھا اور جنہوں نے علمائے دیوبند کی جماعت جمعیت علمائے ہند سے الگ ہو کر جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی تھی اور قیامِ پاکستان کی پُر زور حمایت کی تھی کو بھی اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ لیاقت علی خان اور شبیر احمد عثمانیؒ کی عنایت (قراردادِ مقاصد) کوئی چالیس برس ہمارے گلے میں حائل رہی پھر جالندھر کے میاں طفیل محمد (امیر جماعتِ اسلامی پاکستان) اور ضیاء الحق (جنرل محمد ضیاء الحق صدرِ مملکت و چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) کے گٹھ جوڑ سے (یہ) ہمارے دستور کے نافذ و متن (باقاعدہ ایک حصہ) کے درجے کو پہنچی۔ ہمیں (وجاہت مسعود) کو اپنی مہلت نفس میں اس صبح کی اُمید نہیں کہ جب دستورِ پاکستان کو اس آلودگی (قراردادِ مقاصد) سے پاک کیا جائے گا۔

جناب وجاہت مسعود کے ان خیالات سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ کسی پاکستانی دانشور جسے تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بنیادی مقاصد اور اساسی نظریات سے آگاہی اور اتفاق ہے کے خیالات ہیں۔ ان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قیامِ پاکستان کے مخالف کسی کانگریسی رہنما یا مادر پدر آزاد سوچ کے مالک کسی لادینی دانشور کے خیالات ہو سکتے ہیں۔ مان لیا آپ کو اپنے خیالات پر کاربند رہنے کی آزادی ہونی چاہیے اور یہ آزادی آپ کو حاصل بھی ہے لیکن کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اپنے عظیم قائد محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ایک الگ آزاد خطہِ ارض حاصل کرنے کی بے مثال جد و جہد کے مقاصد اور نصب العین کی نفی کریں اور اکابرینِ ملت کو اپنی بے جا تنقید کا نشانہ بنائیں۔ جناب وجاہت مسعود سے بڑھ کر اور کون اس حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ نے دسمبر 1930ء میں اپنے مشہورِ عالم خطبہ الہ آباد میں ارشاد فرمایا تھا”میں برصغیر جنوبی ایشیا کے شمال مغرب میں پنجاب، شمالی مغربی سرحدی صوبے، سندھ اوربلوچستان کو ایک ریاست کی صورت میں متحد دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرے نزدیک برٹش ایمپائر کے اندر یا اس کے باہر ایک خود مختار مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کا بالخصوص شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے“۔

اقبال ؒ نے برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی الگ مملکت کے لیے ”مسلم ریاست“ کی اصطلاح استعمال کی پھر اقبال ؒ کا ہی کہنا ہے
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نصب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

اب وہ مملکت جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی جس کے لیے پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ کا نعرہ بلند کیا گیا جس کے لیے ایک اَن پڑھ دیہاتی بھی جانتا تھا کہ یہ ایک ایسی مملکت ہو گی جس میں نبی ؐ کے نام کا جھنڈا سربلند ہو گا، اُس کے مقاصد کی نشاندہی کہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی وہ سامنے رہیں اور اُس کے نظام سیادت و قیادت اور معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے بارے میں آئندہ کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالنے والی دستاویز ”قراردادِ مقاصد“ منظور کردہ 12 مارچ 1949ء) کو آلودگی قرارد ینا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اراکین جن کی اکثریت تحریکِ پاکستان کے قائدین پر مشتمل تھی غلط تھے کہ جنہوں نے تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد اور جمہور پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر اور مسالک کے علماء کے تیار کردہ 22 نکات کو سامنے رکھتے ہوئے قراردادِ مقاصد مسودہ تیار کیا اور اُس کی منظوری دی اور جناب وجاہت مسعود صحیح ہیں جو اسے ”قراردادِ مقاصد“ کو آلودگی قرار دے رہے ہیں۔

میں نہایت ادب سے جناب وجاہت مسعود کو یاد دلانا چاہوں گا کہ میری قیامِ پاکستان سے تین، چار سال قبل کی تاریخِ پیدائش ہے۔ راولپنڈی کے ایک پسماندہ اور دور افتادہ گاؤں سے تعلق ہے۔ میرے مرحوم والد جو ایک چِٹے اَن پڑھ کسان تھے اور اُن کے جو ہم عصر دوست، رشتہ دار وغیرہ جنہیں ہم تایا، چچا اور ماموں وغیرہ کہہ کر پکارتے تھے، اُن سے کبھی پاکستان کے قیام کے بارے میں اور گاؤں میں رہنے والے ہندوؤں اورسکھوں کے بارے میں جو تقسیم کے بعد نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے اور زیادہ تر مشرقی پنجاب میں لدھیانے اور انبالے کے اضلاح میں آباد ہوئے کی بات ہوتی تھی تو یہی بتایا کرتے تھے کہ ہمارے گاؤں میں ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ بظاہر اچھے تعلقات تھے لیکن ہم جو کچھ اپنی کھیتی باڑی یا دیگر ذرائع سے کماتے تھے وہ سب ہندو، سکھ بنیوں اور دکانداروں کے پاس چلا جایا کرتا تھا کہ ہم اُن کے مقروض ہوا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کی بات ہوئی تو ہمیں یہی پتہ تھا کہ ہمارا اپنا ملک ہو گا جس میں پاک نبیؐ کے کلمے کا جھنڈا بلند ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.