تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا

20

تاریخ عروج و زوال کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ مورخین اور دانشوروں نے عروج کے رازوں کی بھی نشاندہی کی اور زوال کے اسباب کا بھی تجزیہ کیا۔ مگر اس کے باوجود تاریخ سے سبق سیکھنے کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاص کر ہمارے جیسے ممالک میں جہاں سیاست کے نام پر جاگیر دار، وڈیرے، سرمایہ دار اور گدی نشین ملک کے وسائل پر قابض ہیں، مگر ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا۔ مملکتِ روما جسے عرفِ عام میں رومن ایمپائر کہا جاتا ہے، تاریخ میں عظیم اور طویل ترین مملکتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ ایک ہزار سال تک قائم رہنے والی اس مملکت کا موازنہ اگر ہو سکتا ہے تو صرف مسلم مملکت سے جس کا اقتدار بھی کم و بیش ایک ہزار سال تک دنیا کے مختلف مہذب حصوں پر قائم رہا۔ مملکتِ روما اور مسلم حکومت میں ایک تاریخی مماثلت یہ بھی ہے کہ روما نے یونانی تہذیب کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کیا اور اسلام کی آمد کے بعد بننے والی مسلم حکومتوں نے اُس تہذیبی خلا کو پُر کیا جو رومن ایمپائرکے زوال کے بعد پیدا ہوا تھا۔ دونوں کا اقتدار علم و فن کے عروج کے بعد آخر کار زوال پذیر ہوا اور دونوں کے زوال کے بعض اسباب بھی مشترک تھے۔

رومن ایمپائر کے دارالحکومت روما کی بنیاد 753 قبل مسیح میں رکھی گئی۔ جسے بعد میں قریبی علاقوں میں رہنے والوں کے ساتھ ایک اتحاد بنا کر ایک قوم کی تشکیل ہوئی۔ روما پر ملوکیت اور بادشاہت کا دور 529 قبلِ مسیح تک رہا، جس دوران سات بادشاہ حکمران رہے۔ ساتویں بادشاہ تارکوین کی 539 ق م میں جلا وطنی کے بعد کچھ عرصے تک رومن ایمپائر میں جمہوریت قائم رہی۔ مگر اس جمہوریت میں اقتدار عوام کے بجائے چند حکمرانوں کے پاس رہا۔ دو سو سال کے دوران اٹلی، سسلی، کورسیکا، سارڈینیا پر تسلط کے بعد اہلِ روما یونان پر حملہ آور ہوئے اور مقدونیہ کی سلطنت کو تباہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد مشرق میں ایشیائے کوچک اور مغرب میں سپین اور (گال Gaul) موجودہ فرانس بھی رَوما کے زیرِ اثر آ گئے۔ گال کی فتح جولیس سیزر کا کارنامہ تھا۔ وہی جولیس سیزر جو ڈکٹیٹر بنا اور انطونی نے اُسے قتل کر کے اُس کی لاش پر جو تقریر کی جسے شکسپئیر کے حُسنِ تحریر نے ہمیشہ کے لیے تاریخ اور ادب میں محفوظ کر لیا۔ روما کا سنہری دور ٹراجن، ہیڈرین اور انٹونائن اور مارکس اوریلیس بادشاہوں کا دور تھا جسے معروف انگریز تاریخ دان گبن (Edward Gibbon) تاریخِ عالم کا خوش قسمت دور قرار دیتا ہے۔ مارکس اوریلیس کی وفات180ء میں ہوئی جو رومن تہذیب کا نقطہ عروج تھا۔ اس کے بعد مملکت روما کا زوال شروع ہوا۔ جس کے زوال کو گِبن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف Decline and Fall of The Roman Empire میں نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ اہلِ روما نے عمومی طور پر اور خاص کر زوال کے دور میں علم و حکمت میں کم دلچسپی لی۔ سپہ گری، فنونِ لطیفہ، شاعری، خطابت، موسیقی، فنِ تعمیر اور کھیل تماشے کی طرف زیادہ راغب ہوئے۔ معلمی جسے یونانی عہد میں دقیع ترین پیشوں میں شمار کیا جاتا تھا، اب ایک نچلی سطح کا پیشہ بن گیا۔ قوم کے زیادہ تر افراد کی توجہ کا مرکز سپہ گری، افسری، شاعری، خطابت، اداکاری اور کھیل کود کا میدان رہا۔ جب کہ تعلیم اور تدریس غلاموں کے سپرد ہوئی۔ اس عہد میں ہر صاحبِ ثروت گھر میں غلام رکھتا جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے اور اپنے آقاؤں کے بچوں کو پڑھاتے بھی اور ان کی خدمت بھی کرتے۔ غلاموں کو سزائیں دینا اور کوڑے مارنا عام تھا۔ اکثر شاگرد غلاموں سے پڑھتے بھی اور بعد میں اپنے غلام استادوں کو کوڑے مارتے۔ مملکت روما میں جاگیردارانہ اور غیر جمہوری نظام کی وجہ سے ایسے افراد کی اہمیت زیادہ تھی جو اُمرا کو خوش کر سکیں۔ جس کے لیے علمی مباحث کو تَرک کر کے چٹکلے بازی کا رواج ہوا۔

مغربی مورخین ناقص نظام تعلیم، عقلی علوم سے بے اعتنائی زوال کی بنیادی وجوہات بتاتے ہیں۔ اگرچہ رومن قوم میں عقل و فراست کی کمی نہ تھی اور وہ اپنے مسائل کا حل تلاش بھی کر لیتے تھے۔ مگر وہ دوربینی اور حقیقت پسندی کی بنیاد بننے والے علوم سے دور ہوتے چلے گئے۔ علمی تنزل اور بنیادی اجتماعی اخلاق کا زوال بالعموم کسی بھی قوم کے زوال بنیادی اسباب ہیں۔ اجتماعی اخلاقیات کے میعار کا تعین کرنے کے لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کوئی قوم اپنے اداروں کے بارے میں کیا رویہ رکھتی ہے؟ اپنے ضوابط پر عمل کے لیے کیا رجحان رکھتی ہے؟ اپنے قومی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اتحاد اور وحدت کی نوعیت کیا ہے؟ اس کے بازاروں اور منڈیوں میں لوگوں کے معاملات کیا ہیں؟ اگر اجتماعی اخلاقیات آخری درجے کی پستی پر ہیں اور کم تولنا، جھوٹ بولنا، بد دیانتی، وعدوں کا پاس نہ کرنا، وقت کا احساس نہ ہونا، معاہدات سے پھِر جانا۔ اُمراء وزراء سے لے کر عام آدمی تک کا چھوٹے سے چھوٹے معاملے پر سیاست بازی کرنا عام ہو تو پھر پستی ہی مقدر بنتی ہے۔ قرآن حکیم تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بندہ مومن کا کردار تو یہ ہے کہ اگر کسی بدترین دشمن کے معاملے پر بھی اُسے کوئی بات کہنا پڑے تو وہ انصاف کے خلاف کوئی بات نہ کرے۔ مگر جب یہ چیز مفقود ہونا شروع ہو جائے اور لوگ دوستی اور دشمنی کی بنیاد پر بات کرتے ہوں۔ اپنی غلطی تسلیم نہ کریں اور دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوں تو پھر زوال کیونکر نہ ہو۔ دوسری بات یہ دیکھنے کی ہے کہ علم کے لحاظ سے قوم کس مقام پر کھڑی ہے؟ اگر وہ خود کو عصرِ حاضر کے جدید علوم سے آراستہ نہیں کرتی اور مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کرتی وہ لازماً زوال آشنا ہوتی ہے۔ اس کے مفکر اور دانشور، اس کے شاعر اور ادیب اور اس کے مذہبی سکالر اس کے سیاستدان، حق بات کہنے کی جرأت رکھتے ہوں اور قوم کے اجتماعی اخلاق کی پرورش کرتے ہوں تو پھر ممکن نہیں کہ زوال کسی قوم کا مقدر بنے۔ جیسا کہ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ جب تک کوئی قوم خود اپنے میں بگاڑ پیدا نہیں کرتی اللہ تعالیٰ اُن سے منصب نہیں چھینتا۔ مگر جب حال یہ ہو کہ صوفیا اور شیوخ اُمید لطف پر سرکار کی راہ تَک رہے ہوں، منصف بھی مثالِ سائل ہوں اور دربار کے ایک اشارے پر گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہوں تو پھر زوال کے اسباب کا مداوا کیسے ہو۔ بقول غوث متھروی:
ہمیں جہاں میں کوئی صاحبِ نظر نہ ملا
جو دل کی آنکھ سے دیکھے وہ دیدہ ور نہ ملا

تبصرے بند ہیں.