قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ ا بن تمیم کے سرداروں میں سے تھے۔ قبول اسلام کے بعد ایک بار وہ رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں اپنے کندھوں پر ایک بوجھ اٹھائے پھرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اس بوجھ کو ہلکا کر لوں۔ رسولؐ ان کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے عرض کیا: ”یا رسولؐ ایام جاہلیت میں لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے، میرے بھی بارہ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور میں نے سب کے ساتھ یہ گھناؤنا جرم کیا۔ جب تیرھویں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو میری اہلیہ نے تاثر دیا کہ وہ مردہ پیدا ہوئی ہے اور اسے اپنے قبیلے والوں کے ہاں بھیج دیا۔ بعد میں مجھے حقیقت کا علم ہوا تو میں نے اس بیٹی کو قبیلے والوں سے لیا اور اسے زندہ درگور کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے گیا۔ بیٹی نے میری بہت منتیں کیں، آہ وبکا کی اور چیختی چلاتی رہی لیکن میں نے پروا نہ کی اور اسے زندہ درگور کر دیا“۔ رسول اللہﷺ نے یہ ماجرا سنا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آپؐ کچھ دیر اداس اور غمگین بیٹھے رہے، اس کے بعد فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ قیس نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ میں کیا ایسا کروں کہ میرے دل اور کندھوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے“۔ آپؐ نے فرمایا: ”تم نے جتنی بیٹیوں کو قتل کیا اتنے غلام آزاد کرو شاید تمہارے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے“۔
ہم سمجھتے ہیں شاید بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا عمل صرف زمانہ جاہلیت تک محدود تھا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ گھناؤنا عمل پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ آج بھی موجود ہے اور ہم آئے روز کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہد ہ کر رہے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو پیدا ئش کے فوراً بعد زندہ درگور کیا جاتا تھا جبکہ جاہلیت جدیدہ میں پانچ، آٹھ، دس، بارہ اور پندرہ سال کی بچیوں کو زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن پاکستان کے کسی علاقے سے ماں یا باپ کے ہاتھوں بچوں اور بچیوں کو زہر دینے، نہر میں پھینکنے، کلہاڑی کے وار کرنے اور فائرنگ کر کے مارنے کی خبریں رپورٹ نہ ہوتی ہوں۔ عید کے اگلے دن مظفر گڑھ میں جو قیامت برپا ہوئی اس نے ہر ذ ی روح کا کلیجہ چھلنی کر دیا ہے۔ نبی علیہ السلام پیدائش کے فوراً بعد زندہ درگورہونے والی بچیوں کے ذکر پر آبدیدہ اور غمگین ہو گئے تھے جبکہ یہاں تو پانچ، سات، آٹھ اور دس سال کی خوبصورت کلیوں کو بے دردی سے مسل دیا جاتا ہے۔ مظفر گڑھ میں قتل ہونے والی بچیوں میں 8
سالہ انسہ، 7 سالہ کنزا، 6 سالہ رمشا، 4 سالہ مہناز، 3 سالہ انس،2 سالہ سبحان اور 6 ماہ کی منزہ شامل تھیں۔
سماج میں آئے روز ایسے واقعات کیوں ہو رہے ہیں اس پر کوئی تحقیق ہو رہی ہے نہ ہی ان کی روک تھام کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔ لازم ہے کہ ریاستی سطح پر ایسے واقعات کے اسباب و عوامل کا جائزہ لیا جائے اور ان کے روک تھام کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ ایسے واقعات کے متعدد عوامل ہو سکتے ہیں لیکن میری دانست میں ایک اہم وجہ زوجین کے مابین مستقبل کی منصوبہ بندی نہ ہونا اہم ترین عنصر ہے۔ زوجین کو اپنے وسائل کے مطابق خاندان تشکیل دینا چاہئے لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو اس سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ غربت، جہالت اور ناخواندگی اور اس کے نتیجے میں مظفر گڑھ جیسے واقعات دراصل اسی پہلے مسئلے کی پیداوار ہیں۔ مثلاً آپ اسی واقعے کو دیکھ لیں، قاتل کی عمر صرف چالیس سال اور وہ معذور اور بے روزگار تھا اور اسی وجہ سے گھر میں اکثر ناچاقی اور لڑائی جھگڑا رہتا تھا۔اس سے پہلے بھی جتنے واقعات ہوئے اگر تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو اندازہ ہو گا کہ ان واقعات کے پیچھے بھی یہی عنصر کارفرما تھا۔ اس لیے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے عوام میں یہ آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ اپنے وسائل کے مطابق خاندان تشکیل دیں۔ ریاستی سطح پر اگرچہ ایسے ادارے موجود ہیں لیکن ان کی آواز اور حکمت عملی مؤثر نہیں ہے۔ ہمارے جیسے سماج میں جب اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسی بات نہیں ہے۔ اسلام دین اعتدال ہے، قرآن کی بیسیوں آیات اور اور نبی اکرم ﷺ کی بیسیوں احادیث ہمیں اعتدال سکھاتی نظر آتی ہیں۔ کتب سیرت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کا ایک واقعہ نقل ہوا ہے جس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اعتدال ہی اسلام کا حسن ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ قبیلہ قریش کے چشم و چراغ تھے، اوائل عمری میں ہی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تھے۔ ہر موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور ساتھ دیا۔ نیک صفت، متقی اور بہادر تھے۔ جہاد میں بھی مسلسل شریک رہتے اور حصول علم کے بھی شوقین تھے۔ عبادت وریاضت کا ایسا شغف تھا کہ رہبانیت کی حدوں کو چھونے لگا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے انہیں بلا بھیجا۔ آپ نے پوچھا: ”کیا یہ بات درست ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نماز میں مشغول رہتے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: ”جی ہاں یارسول اللہ صلی علیہ وسلم“۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”ایسانہ کرو۔ مسلسل روزے نہ رکھا کرو، کبھی روزہ رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو۔ اسی طرح رات بھر قیام نہ کیا کرو، رات کا کچھ حصہ عبادت میں گزارو اور کچھ حصہ آرام کرو۔ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری آنکھوں کا بھی حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملنے کے لیے آنے والے دوست احباب کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے لیے یہ عمل کافی ہے کہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ اس سے تم مستقل روزہ دار شمار ہو گے کیونکہ تمہیں ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا“۔انہوں نے عرض کیا: ”یار سول اللہ میں اپنے اندر اس سے زیادہ عمل کی قوت پاتا ہوں“۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کی طرح روزہ رکھا کرو اور اس سے آگے ہر گز نہ بڑھو۔ داؤد ایک دن روزہ رکھتے تھے اور دوسرے دن روزہ نہیں رکھتے تھے“۔ اسی طرح انہیں تلاوت قرآن کا بھی بہت شوق تھا اور وہ بیش تر وقت قرآن پڑھنے میں صرف کیا کرتے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ”ایک ماہ میں ایک بار قرآن مجید ختم کر لیا کرو“۔ انہوں نے عرض کیا: ”یار سول اللہ! مجھ میں اس سے کہیں زیادہ طاقت ہے“۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تین دن میں ختم کر لیا کرو“۔ پھر زندگی بھران کا یہی عمل رہا لیکن زندگی کے آخری برسوں میں جب بڑھاپے اور ضعف نے آلیا تو اپنے اہل و عیال اور شاگردوں سے فرمایا کرتے کہ کاش میں نے رسول اللہ کی دی ہوئی رخصت کو مان لیا ہوتا۔ رسول اللہ فرمایا کرتے تھے کہ میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں مگر میں روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں۔ رات کو قیام کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ میں شادی کرتا ہوں (اور اہل و عیال کے حقوق ادا کرتا ہوں)۔ سیرت طیبہ کے یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ زندگی میں اعتدال اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ آج ہم جن خوفناک سماجی امراض کا شکار ہیں اور جن میں سرفہرست مظفر گڑھ جیسے واقعات ہیں ہمیں ان سے نمٹنے کے لیے اعتدال کی طرف آنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر آگہی پھیلانے کے ساتھ علماء، اساتذہ، درسگاہوں اور منبر و محراب سے بھی یہ آواز بلند ہونی چاہئے۔ خاندان کی تشکیل میں اعتدال اور زوجین کے مابین مستقبل کی منصوبہ بندی سے ہم مظفر گڑھ جیسے واقعات کو ختم نہیں لیکن کم ضرور کر سکتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.