ابنِ آدم اور کتنا زر چاہیے؟

19

تخلیقِ انسان و کائنات سے پہلے ہی رب العالمین نے اس کے رزق کا بندوبست فرما دیا تھا۔ مگر اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ ابلیس نے انسان کو بھٹکانے کا کام اپنے ذمے لیا ہے اور اس میں وہ کبھی پیچھے نہیں رہا۔ گام گام پر اللہ کے بندوں کو راہِ ہدایت سے بھٹکانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں: طمع وہ پہلا گناہ ہے جو دنیا میں ظاہر ہوا، ابلیس ہر روز طمع کا طبل بجاتا ہے کہ اس کے کانوں میں آوازِ طمع ہی ڈالی گئی ہے۔ حضرتِ انسان کو کچھ صلاحیتوں اور خواہشات کے ساتھ دنیائے فانی میں اس تاکید کے ساتھ بھیجا گیا کہ تمہاری یہ خواہشات اس دنیا میں مکمل ہونا ممکن نہیں ہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی گزار کر جنت میں داخلے کے بعد پوری ہوں گی، سو انسان کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے کچھ خواہشات دنیا میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتیں۔ انسان اپنی عمر سے زیادہ کی آرزو کرتا ہے، ایسے انتظامات کرتا اور ایسی بلند و بانگ عمارات بناتا ہے جن کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کی عمر گزر جاتی ہے۔مگر جب انسان کی سوچ میں حرصِ مال و زر سما جائے تو پھر اسے طمانیت و سکون مال جمع کرنے میں نظر آتا ہے۔چار سو زمینیں، جائیدادیں، روپیہ، پیسہ، سونا، چاندی کے سواکچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے اور پھر اس انسان کا پیٹ بڑی سے بڑی نعمت کے حصول سے بھی نہیں بھرتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مزید سے مزید کی طلب اس کے اندر بڑھتی چلی جاتی ہے اور پھرایسا انسان جائز و ناجائز ہر طریقے سے مال جمع کرنے کو حلال تصور کرتا ہے اور جمع کرنے کے بعد وہ مزید کی طلب میں بے تاب ہو جاتا ہے۔ زندگی کا ایک بڑا ہی بنیادی قانون ہے کہ اگر انسان حرص سے بچ گیا تو پھر وہ ہر بلا سے ہی محفوظ ہو گیا۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’اور جس نے اپنے نفس کو حرص سے بچا لیا وہی فلاح پانے والے ہیں‘۔ (الحشر ۹)دنیا میں ادنیٰ مظالم سے لے استعمار اور ملک گیری تک سارے مظالم کی بنیاد یہی ایک حرص ہے جو دولت و اقتدار کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی ہے اور پھر انسان کا پیچھا اسے تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی۔حضرت ابو درداؓ  نے فرمایا: ’کیا بات ہے کہ تمہارے علما ء اٹھتے جا رہے ہیں اور تمہارے جاہل لوگ علم حاصل نہیں کرتے؟‘ علماء کے اٹھ جانے کے ساتھ علم کے رخصت ہو جانے سے پہلے پہلے علم حاصل کرو، اور فرمایا کیا بات ہے کہ تم اس چیز پر حریص ہو جس کی ضمانت اللہ تعالیٰ کے ذمے اور سپرداری میں دی گئی ہے اسے ضائع کر رہے ہو۔ میں تمہارے شریر لوگوں کو یونہی پہچانتا ہوں، جیسے حیوانات کا ماہر گھوڑوں کی نسل سے واقف ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جو زکوٰۃ کو جرمانہ یعنی تاوان سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ نمازوں میں آخر وقت پر آتے ہیں۔ قرآن کو بے توجہی سے سنتے ہیں۔ آزاد لوگوں کو آزاد ہوتے ہوئے رہا نہیں کرتے۔ زیادہ سے زیادہ کی حرص انسان کو ہمیشہ غیر مطمئن اور دکھ کے زیر اثر رکھتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: کثرتِ مال کی ہوس میں تم اتنے غرق ہو گئے، یہاں تک کہ تمہاری ٹانگیں قبروں میں جا پہنچیں۔ یہ ایک ایسا جال ہے جس میں لالچ، جھوٹ، مکاری، طمع، حرص، فریب اور خودنمائی کے خوشنما نگینے جڑے ہیں، لوگ ان نگینوں کی چمک دمک سے گمراہ ہو کر زندگی کے اصل مقصد اور حقیقی مسرت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور پھر ان کے بگاڑ سے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ہونے لگتی ہیں۔ خیر و شر دونوں ہی انسان کے لیے آزمائش بن کر اس کی دائمی فلاح کا باعث بنتے ہیں، دونوں میں فرق کی شناخت کے لیے رب العالمین نے حضرتَِ انسان کو شعور کی دولت سے مالامال کیا ہے۔ اسی شعور کو سراہتے ہوئے حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں۔

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ: تم فرماؤ اگر میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو انہیں بھی روک رکھتے اس ڈر سے کہ خرچ نا ہو جائیں اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔ انسان مال و زر جمع کرنے میں اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ تمام اخلاقیات کو تہہ دام تصور کرتے ہوئے صرف اور صرف مال جمع کرنے میں مصروف ہے۔ مال و زر کی طلب نے ابنِ آدم میں ایسی بھوک پیدا کر رکھی ہے جو کسی بھی چیز کے حصول سے ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔دینِ اسلام ایک مکمل دین ہے یہ زر کے ارتکاز کے بجائے مال و زر کی نشونما، تقسیم اور زر کے ذریعے جہاد، فلاحِ انسانیت کا درس دیتا ہے۔دینِ محمدیؐ اپنے ماننے والوں پر زکوٰۃ و عشر کا ایسا نظام لاگو کرتا ہے کہ وہ ایک خاص مقدار تک مال جمع کرنے کے بعد اضافی مال سے زکوٰۃ، عشر اور صدقات کی مخصوص مقدار و تعداد مستحق افراد، مسافر وں، قیدیوں کے چھڑانے کی خاطر استعمال کی جائے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اہلِ اسلام بھی زکوٰۃ و عشر کی ادائیگی میں حیلے بہانے کرنے لگے ہیں۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اکثر یہ فرماتے: کہ اگر ابنِ آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تمنا کرے گا کہ اس کے ساتھ تیسری بھی مل جائے اور ابنِ آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی پُر کر سکتی ہے، اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ نے یہ کمال تو اس لیے بنائے ہیں تاکہ ان کے ذریعے نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے۔مال و دولت کی ہوس انسانوں میں ایک ان دیکھی تقسیم پیدا کر دیتی ہے کہ انسان اپنے خونی رشتوں تک کا جانی دشمن بن جاتا ہے۔ اگر اللہ اپنی رحمت سے کسی کو کوئی نعمت عطا کرے تو باقی سب اسی کھوج میں نکل پڑتے ہیں کہ اس کے پاس یہ کہاں سے آیا اور پھر اسے برباد کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی بنائی حدود و قیود کو پار کیا جاتاہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ امیر و غریب ہر بشر ہی بے چین، پریشان اور نا امید دکھائی دیتا ہے۔اس بھوک کی سیرابی کا ساماں حضرتِ انساں کی سمجھ سے کوسوں دور ہے۔

تبصرے بند ہیں.