بے چینی کی خطرناک لہر

91

ملک میں مفادات حاصل کرنے والوں کا ایک مؤثر گروپ ہمیشہ سے موجود ہے جس کا خیال ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل جمہوری نظام میں ہے، وہ جمہوری نظام جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے وہ نہیں بلکہ وہ جمہوری نظام جس میں نمائشی عہدے، نمائشی دفاتر، ہزاروں افراد پر مشتمل عملہ اسکی تنخواہیں، مراعات ایک شخص کو پانچ مختلف حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت تاکہ وہ چار حلقوں سے شکست کھانے کے باوجود قومی یا صوبائی اسمبلی تک پہنچ جائے۔ اسی طرح خواتین کی مخصوص نششتیں جن پر انتخاب کا فقط ایک ہی میرٹ ہے جو قابل تحریر نہیں، مرکز میں ستر سے اسی افراد تک کی کابینہ جو کسی دوسرے ملک میں نظر نہیں آتی، تین تین کیمپ آفس جن کا تمام خرچ بذمہ سرکار، صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ کیلئے جہازوں کے علاوہ ہیلی کاپٹرز، پانچ سے سات برس تک کی نوکری میں آخری تنخواہ کے برابر پنشن، گاڑی، ڈرائیور، گارڈز، خانساماں اور خاندان بھر کیلئے علاج معالحے کی سہولت، سیکرٹ فنڈز صوابدیدی اختیارات کے تحت جہاں چاہے استعمال کرے کوئی اسے پوچھ نہ سکے۔ جہاں کلرک اپنے پلے سے پٹرول خریدے، بجلی و گیس کے بل ادا کرے اور مہینے کے اختتام پر فقط چند ہزار روپے پس انداز نہ کر سکے جبکہ لاکھوں روپے تنخواہ پانے والوں کو مفت کی گاڑیاں، پٹرول، گیس اور فون کی سہولت میسر، تنخواہ سیدھی بینک میں، مہینے کا گذر تحائف کے زور پر، ساتھ غیر ملکوں کی شہریت رکھنے کی اضافی سہولت، اِدھر نوکری ختم اُدھر غیر ملک کو روانگی، قوم کی جان اتنے میں ہی چھوٹ جائے تو غنیمت لیکن نہیں اسکے بعد ڈالروں میں پنشن پر استحقاق برقرار رہتا ہے۔ جنرل مشرف کو اقتدار سے رخصت ہوئے بائیس برس ہو چکے انکے بعد چار حکومتیں آئیں جو انتخابات کے نتیجہ میں آئیں۔ ہر حکومت کے اختتام پر مہنگائی، ملکی قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ ملک ڈیفالٹ کے دھانے پر آ پہنچا کوئی سیاستدان، کوئی بیورو کریٹ دیوالیہ نہ ہوا سب کے وسائل اور اثاثوں میں اضافہ ہی نظر آیا۔ آج تک کوئی سیاستدان ایسا سامنے نہ آیا جس نے کہا ہو کہ وہ الیکشن کے اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا اس مرتبہ الیکشن نہیں لڑے گا۔ دنیا کا مہنگا ترین الیکشن ہمارے یہاں ہے، چند ماہ قبل ہونے والا الیکشن قومی اسمبلی کا ہو یا صوبائی اسمبلی کا کروڑوں روپے میں پڑا ہے۔ حیرت ہے کروڑوں روپے الیکشن میں جھونک دینے کے بعد اور شکست کھا جانے کے بعد آئندہ الیکشن کیلئے کئی کروڑ کہاں سے آ جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ضابطے کے مطابق اخراجات کی ایک حد مقرر ہے لیکن اس حد سے تجاوز کرنے کے معاملے میں بے قاعدگیاں واضح ہونے کے بعد آج تک کسی پارلیمنٹرین کو نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ ہر حکومت اقتدار میں آنے کے بعد اعلان کرتی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے یہ تمام سخت فیصلے عام
آدمی کا خون نچوڑنے کیلئے کیے جاتے ہیں حالانکہ اسکے کئی متبادل موجود ہیں لیکن کوئی حکومت ادھر دیکھنا نہیں چاہتی۔ کبھی کسی ایک صوبے کے احساس محرومی کی بات کی جاتی تھی آج یہ احساس محرومی ملک کے کونے کونے میں پایا جاتا ہے، آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ حکومت نظام میں اصلاحات پر توجہ دے، پارلیمنٹ کی مدت چار برس کی جائے، ایک ہی خاندان کے متعدد افراد کی پارلیمنٹ میں موجودگی کے حوالے سے کوئی قانون سازی ہونی چاہیے۔ ستر برس میں ملک نصف رہ گیا، وزراء اور مشیروں کی تعداد تین گنا ہو گئی، ترقیاتی فنڈز پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت استعمال ہونا چاہئیں، سینیٹ الیکشن براہ راست ہوں، نمائشی ریزرو سیٹیں ختم کی جائیں، وزارت عظمیٰ کیلئے دو بار کی مدت کا قانون بنایا جائے، نگران حکومت کا ڈرامہ صرف ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے دنیا میں کہیں اور نہیں، پھر اسکے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن بھی ہے جو خود انتخابات کرانے کا مجاز ہے۔ حالیہ عام انتخابات کرانے کے لیے آنے والے کیئر ٹیکر عہدیداروں نے غیر ملکی دورے کیے، اربوں روپے کے ٹھیکے دیئے اور عوامی خدمت کے نام پر وہ کچھ سنا جس کی تفصیلات اگلی حکومت کے دور میں سامنے آئینگی۔ بیک وقت دو دو عہدے رکھنے کی خواہش اور گنجائش اب بڑھنے لگی ہے، اسے روکنا ہو گا۔ نئی مثال سامنے آئے گی کہ وفاقی وزیر اپنی وزارت کی تنخواہ چھوڑ دے گا جبکہ ایک اور آزاد منصب کی تنخواہ و مراعات نہیں چھوڑے گا۔ معاشی و سیاسی بحران تو موجود تھے ہی اب اخلاقی بحران بھی زور و شور سے سامنے آئے گا لیکن پھر اسے فیشن کے طور پر قبول کر لیا جائیگا۔ جس طرح فحاشی کبھی ناپسندیدہ تھی آج اوڑھنا بچھونا بن چکی تھے۔ ذرائع کے مطابق گذشتہ ماہ بازار حصص میں عام لوگوں کے سوا کھرب روپے ڈوب گئے۔ گذشتہ برس تقریباً دس کھرب روپے ڈوبے تھے، کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ یہ رقم جاتی کہاں ہے۔ یہ رقم عام لوگوں کی جیب سے نکل کر خاص لوگوں کی جیب میں جاتی ہے۔ جی انہیں لوگوں کی جیب میں جو صاحبان اقتدار کو کرسی سنبھالتے ہی جیٹ ہوائی جہاز خرید کر تحفے میں دیتے ہیں۔ ان کے الیکشن فنڈ میں حصہ بقدر جثہ ڈالتے ہیں پھر وقت آنے پر اپنی پسند کے وہ فیصلے کراتے ہیں جس سے انکے کاروبار کو فائدہ ہو۔ ملک بھر میں ایک کاروباری شخصیت کے بڑے چرچے ہیں۔ انہیں ایک مرتبہ نیب نے طلب کیا، دوسرے دن چیئرمین نیب کو فون آ گیا آئندہ انہیں تنگ نہ کیا جائے۔ ایک کاروباری شخصیت کا پاور پلانٹ ہے۔ حکومت نے ان سے معاہدہ کر رکھا ہے کہ ہم بجلی خریدیں نہ خریدیں آپکو ایک خاص رقم ڈالروں میں دینے کے پابند ہیں، یہ رقم کروڑوں ڈالر سالانہ ہے۔ جب ہمارے پاس رقم ادا کرنے کیلئے نہیں ہوتی تو حکومت ان کے بینک سے قرض لیتی ہے جو وہ ہنسی خوشی دیتے ہیں۔ پھر ہم اس قرض کی رقم سے انہیں ادائیگی کرتے ہیں جبکہ اس ادا شدہ رقم کا سود عام آدمی پر ڈال دیتے ہیں۔ آئے روز بجلی، گیس، پٹرول اور جانے کتنی چیزوں کی قیمت میں اضافہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ماہ جولائی سے ریٹیلر پر ٹیکس کی تیاریاں ہیں، ٹیکس ضرور لیں لیکن سرکاری اللے تللے بھی تو ختم ہونا ضروری ہیں، ٹیکس ماہرین نے تجویز کیا ہے تاجروں سے ٹیکس بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کیا جائے، وقت قریب ہے، ہر شخص بے تحاشا ٹیکسوں کی ادائیگی کے بجائے اندھیروں میں رہنے کو ترجیح دے گا۔ ایف بی آر  نے تیسری سہ ماہی میں پونے سات ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا کیا انکا تو ہدف پورا ہوا۔ عام آدمی کنگال ہو گیا ہے، بے چینی کی نئی لہر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.