رمضان المبارک اختتام پذیر ہونے والا ہے۔ دل کرتا ہے کہ سیاست اور حالاتِ حاضرہ کے گھِسے پِٹے موضوعات پر لکھنے کی بجائے کچھ قابلِ قدر احباب کا تذکرہ کیا جائے۔ یہ اللہ کریم کا احسان ہے کہ ہم چند احباب کا ایک مختصر حلقہ ہے جس میں مجھے چار پانچ انتہائی قابلِ قدر، مخلص ، صاحبِ بصیرت شخصیات کی رفاقت حاصل چلی آ رہی ہے۔ ان ہی میں ڈاکٹر ند یم اکرام ایک ایسی شخصیت ہیں جن سے میرا اُستاد اور شاگرد کا رشتہ ہونے کے ساتھ ایک عزیز دوست اور مخلص مہربان اور مربّی کا رشتہ بھی برسوں سے استوار ہے۔
عزیزی ڈاکٹر ندیم اکرام کے بارے میں لکھتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ ان کی کون کونسی خوبیوں، اچھائیوں اور شخصیت کے پہلووں کا ذکر کروں ۔ان کے والد گرامی محترم اکرام قمر مرحوم آئی ایس پی آر میں مسلح افواج کے ترجمان جریدے "ہلال "کے ایڈیٹر تھے اور راولپنڈی کینٹ میں 22نمبر چونگی دھمیال روڈ پر ایک بڑے سے مکان میں رہائش پذیر تھے جہاں میں عزیزی ندیم اکرام کو کیڈیٹ کالج حسن ابدال میں داخلے کے امتحان کی تیاری کے لیے کچھ عرصہ پڑھانے کے لیے بھی جاتا رہا ۔ندیم اکرام کے تینوں بھائی عزیز اکرام ،ثاقب اور علی اکرام بھی سر سید سکول میں میرے شاگرد رہے ہیں۔ ماشاء اللہ اب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود انتہائی مودّب ، وفا شعار اور خدمت گزار ہیں لیکن ڈاکٹر ندیم اکرام کی بات ہی اور ہے۔ ان جیسی وفا شعار خدمت گزار اور مرنجاں مرنج شخصیت کم ہی ملے گی۔ سر سید کالج سے ایف ایس سی بہت اچھے نمبروں میں پاس کرنے کے بعد انہیں ایم بی بی ایس کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔ کالج کی تعلیم
کے دوران ان کی اسلامی جمعیت طلباء سے وابستگی ہوئی جو اب بھی ان کی شخصیت میں کسی نہ کسی صورت میں جھلکتی رہتی ہے۔ راولپنڈی میڈیکل کالج کے الائیڈ ہاسپیٹلز بینظیر ہاسپیٹل مری روڈ ، ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر ہسپتال فوارہ چوک اور ہولی فیملی ہسپتال میں ہی ان کی ملازمت کا بشتر عرصہ گزرا ہے ۔ پچھلے کئی سالوں سے وہ بے نظیر ہسپتال کے شعبہ پیتھالوجی کے سربراہ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں اور دو تین سال قبل اسی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔
عزیز ی ڈاکٹر ندیم اکرام جہاں ایک ماہر اور نامور پیتھالوجسٹ ہیں وہاں انتہائی صاحب مطالعہ شخصیت بھی ہیں۔ ادب ، شعر و شاعر ی ، حالات حاضرہ ، ملکی سیاسی حالات و واقعات ، موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں اورمعروضی صورت حال کاجائزہ ، غرضیکہ کوئی بھی موضوع ہو وہ انتہائی سیر حاصل، مدلل اور برسر زمین حقائق کی روشنی میں خوب صورت اور فکر انگیز تجزیہ کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات ٹھوس انداز میں سامنے آنے والے مخالفانہ نکتہ نظر کو ماننے کی بجائے خواہ مخواہ اپنی بات پر اڑ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ندیم اکرام جس طرح کے اعلیٰ اخلاق و کردار ، خدا خوفی ، صوم و صلوۃ کی پابندی اور دیگر شخصی خوبیوں جن میں ہمدردی ، خدمت خلق اور احباب کی خدمت گزاری وغیرہ شامل ہیںسے متصف ہیں۔اس کی اس دور میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ سرکاری ہسپتال میں پوری محنت ، لگن اور جانفشانی سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ اپنی پرائیوٹ لیبارٹری میں بھی ذمہ داریوںکی سرانجام دہی میں اپنے احبا ب اور جاننے اور نہ جاننے والوں کی حتیٰ الوسع دستگیری کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ان کی لیبارٹری سے اپنے یا اپنے کسی عزیز کے مختلف میڈیکل ٹیسٹوں کی فیس ادا کرنی پڑی ہو۔
ڈاکٹر ندیم اکرام بلاشبہ شگفتہ مزاج ہونے کے ساتھ اپنی سوچ ، فکر ، اپنے نظریات و افکار اور اپنی کمنٹمٹ پر کاربندرہنے والی اور اس ضمن میں کسی بھی صورت میں کمپورمائز نہ کرنے والی شخصیت ہیں۔ میں نے اوپر لکھا کہ وہ انتہائی کثیر المطالعہ اور شعر و شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ اُردو اور انگریزی زبانوں پر انہیں تحریر وتقریر بالخصوص تحریر میں اچھا عبور حاصل ہے۔ وہ اخبارات میں چھپنے والے اہم کالم وغیرہ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں میں ان سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ وہ کسی قومی روزنامے یا جریدے میں باقاعدگی سے لکھنا شروع کر دیں تو یہ ان کے لیے کوئی مشکل امر نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر ندیم اکرام کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ہمارے محدود حلقہ میں شامل احباب کے مل بیٹھنے کے پروگرام کے رابطہ کار کی بڑی خوبی سے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ آخر میں حلقہ احباب کی اہم ترین شخصیت سابقہ سینیٹر ، بیوروکریٹ اور سابقہ نگران وفاقی وزیر فواد حسن فواد جو کہ ایک خوبصورت شاعر بھی ہیں کے مجموعہ کلام ’’ گنجِ قفس‘‘ میں کے چند اشعار
ہمیں لگا کہ کسی اور ہی دیار میں تھے
عجیب رنگ ہی اب کے برس بہار میں تھے
جو رد کفر کی بیعت کے مرتکب ٹھہرے
ہم اہل صدق و صفا کی اُسی قطار میں تھے
وہ منتقم تھا تو ہم تھے صبر نصیب بہت
اشارہ رب یزدا ںکے انتظار میں تھے
جو با کمال تھے سارے خزاں نصیب ہوئے
جو بے ہنر تھے وہ سب سایہ بہار میں تھے
جو وقت آیا تو بھیڑوں کے غول میں نکلے
ہمیں گماں تھا کہ وہ شیر کی کچھار میں تھے
تراش لی ہیں نئی منزلیں سبھی نے حسنؔ
بس ایک ہم ہی فقط جو تیرے انتظار میں تھے
تبصرے بند ہیں.