جمہوریت کی مضبوطی

87

دنیا میں وقت گذرنے کے ساتھ چیزیں بہتر ہوتی ہیں لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں وقت گذرنے کے ساتھ حالات بہتر ہونے کے بجائے بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور یہ کسی ایک آدھ پہلو سے نہیں بلکہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ ویسے تو عرصہ ہوا کہ اب ہم بھی بزرگوں میں شامل ہو چکے ہیں لیکن جو ہم سے بھی بڑے ہیں ان کی زبانی اور ان کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ کبھی کوئی زمانہ ہوتا تھا کہ ہماری قومی ایئر لائن پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا۔ کبھی سٹیل مل بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھی اور منافع بخش تھی ۔ ویسے یقین تو نہیں آتا لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے کہ کبھی ہم بھی ان ممالک کو قرض دیتے تھے کہ جن سے قرض لینے کے لئے اب ہمیں ان کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے اور سو باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ کبھی شمالی کوریا کا بجٹ ہمارے ماہرین معاشیات بنایا کرتے تھے ۔ ایک زمانہ تھا کہ ایوب خان کے دور میں جب متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان آل نیہان پاکستان کے دورے پر آئے تو فیڈرل سیکرٹری سطح کے ایک افسر نے ان کا استقبال کیا اور شیخ زید کے ذاتی دوست آغا حسن عابدی کی سفارش پر ان کے استقبال کے لئے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا۔ کبھی ہماری اتنی اہمیت تھی کہ صدر ایوب اگر امریکہ کے دورے پر جاتے تو انھیں جیپ میں شہر گمایا جاتا اور امریکی عوام ان کے استقبال کے لئے سڑک کے دونوں اطراف کھڑے ہوتے۔ کبھی دنیا میں ہماری عزت و تکریم تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو اگر سعودی عرب دورے پر جاتے تو شاہ فیصل ان کے لئے آخری حد تک چلے جاتے اور دنیا کو باور کرانے کے لئے کہ پاکستان اور سعودی عرب یک جان دو قالب ہیں اگر بھٹو صاحب سعودی عرب کی آئل ریفائنری کے کھلے حصے میں سگار پینے کی فرمائش کر دیتے ہیں تو ان کے سگار پینے کے لئے تاریخ میں پہلی اور اب تک آخری بار اس ریفائنری کو بند کیا گیا ۔ 1974 کے بعد آج پچاس سال ہو گئے لیکن بھٹو صاحب کے بعد دوبارہ پاکستان کو کوئی ایسی قیادت نہیں ملی کہ جسے اسلامی سربراہ کانفرنس کا چیئر مین بنایا جا سکے لیکن بونے لیڈروں کے قصیدے پڑھنے والوں کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنے دو دو فٹ کے لیڈروں کو سیڑھیاں لگا کر ان کا قد بڑھانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ کامیابی نہیں ملتی۔ کبھی کھیلوں کے میدان سے لے کر فلموں کی دنیا تک ہر جگہ ہمارے نام کا ڈنکا بجتا تھا لیکن اب وہ دور خواب ہوئے۔
وقت گذرنے کے ساتھ دنیا میں اکثر جگہ پر آمریتیں دم توڑ رہی ہیں لیکن عالم اسلام میں اور خاص طور پر پاکستان میں جمہوریت بھی مضبوط ہونے کے بجائے کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ جمہوریت کا ایک مضبوط ستون اعلیٰ عدلیہ کا کردار پہلے بھی کوئی بہت زیادہ قابل تحسین نہیں تھا لیکن جب سے دو پارٹی سسٹم کے بجائے دو لاڈلا سسٹم ملک میں رائج ہوا ہے تو اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم بھی اس حد تک واضح ہو گئی ہے کہ اس سے ایک عام شہری بھی واقف ہو چکا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ دیگر شعبوں میں بھی ہے کہ پہلے کچھ پردہ ہوتا تھا لیکن اب یہ تکلف بھی ختم ہوتا جا رہا ہے بلکہ بڑی حد تک ختم ہو چکا ہے۔ 1988میں گیارہ سال بعد جمہوریت بحال ہوئی تو سمجھا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کس قدر کمزور ہو گی لیکن پھر بھی 90 کی دہائی میں حکومت کے خلاف اگر لانگ مارچ یا ٹرین مارچ ہوئے تو کم از کم دو ڈھائی سال بعد ہوئے۔ 2008 میں مشرف آمریت میں جمہوریت بحال ہوئی تو اس وقت بھی جمہوریت کمزور تھی لیکن پھر بھی حکومت کے خلاف مہم جوئی کرنے میں کچھ وقت لگا لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد جب58ٹو بی کی غیر جمہوری شق کو ختم کر دیا گیا تو اس کے بعد وزیر اعظم کو فارغ کرنے کے لئے عدلیہ کا سہارا لیا گیا لیکن اتنے وقت کا انتظار بھی شاید کچھ قوتوں کو گوارہ نہیں تھا اسی لئے جب دوسرے لاڈلے کی سیاست میں انٹری ہوتی ہے تو پھر الیکشن کے فوری بعد 35پنکچرز کی کہانیاں سنائی دینا شروع ہو تی ہیں اور کم و بیش سوا سال بعد ہی لانگ مارچ اور ساتھ میں دھرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ جب ان سے کام نہیں چلا تو پھر پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن سے بالا بالا سپریم کورٹ کے ذریعے افتخار چوہدری کی رسم بد کی پیروی کرتے ہوئے ایک اور وزیر اعظم کو تا حیات نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ 2022 میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے بعد عمران خان نے چھ ماہ میں سو سے زائد جلسے اور دو بار لانگ مارچ کر کے ملک میں مسلسل انتشار کا ماحول پیدا کئے رکھا جس سے سیاسی عدم استحکام کی فضا تو بنی سو بنی لیکن ساتھ میں پاکستان کی معیشت بھی تنزلی کا شکار رہی ۔

اب بھی وہی حکمت عملی اپنائی گئی کہ حکومت کو چین کا ایک دن گذارنے نہیں دینا یعنی الیکشن سے پہلے ہی تحریک انصاف نے ہی نہیں بلکہ دیگر قوتوں کی جانب سے بھی ایسے اقدامات کئے گئے کہ جس سے اس تاثر کو پوری تقویت ملی کہ انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور رہی سہی کسر جس طرح انتخابات کے نتائج میں تاخیر کی گئی اس سے پوری ہو گئی ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے تحریک انصاف کے بیانیہ کو مضبوط بنانے کے لئے ہر وہ قدم اٹھایا گیا کہ جس سے اس کے بیانیہ کو عوام میں پذیرائی ملے اور حکومت کے خلاف مہم چلا کر جس حد تک ہو سکتا ہے ملک میں بے یقینی کی فضا قائم رہے اور جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی رہیں۔ یہ ایک نیا طریقہ ہے لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ 2014 کے دھرنوں میں کہا جاتا تھا کہ جس پلڑے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے وزن ڈال دیا اسی پلڑے کی جیت ہو گی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے دھرنوں کے پلڑے کے بجائے نواز لیگ کی حکومت کی حمایت کی تھی اور اب بھی جب تک دونوں جماعتوں کا اتحاد برقرار ہے یہ حکومتی سیٹ اپ قائم رہے گا اور ایک دن جمہوریت دشمن قوتوں کو شکست ہو گی ۔

تبصرے بند ہیں.