عدالتی نظام: انصاف کا منتظر

57

شیخ نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ اسلامی فقہ اور قانون کے سب سے بڑے اسکالر تھے۔ انہوں نے جو کچھ کہا عملاً خود بھی اس پر عمل کیا عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور آپ کے علمی وقدوقامت سے بہت متاثر تھا اور اندر سے اس بات پر خوف زدہ تھا کہ مسلمانوں کے اندر خلیفہ سے زیادہ ابو حنیفہ کا عزت و احترام اور مرتبہ تھا۔ خلیفہ منصور نے آپ کو دربار میں بلا کر قاضی القضاء (چیف جسٹس) کا عہدہ دینے کی پیش کش کی آپ نے فوراً انکار کر دیا۔ خلیفہ کا اصرار بڑھا تو آپ نے کہا کہ اگر میں یہ عہدہ قبول کرتا ہوں اور کل کو میرے سامنے آپ کے خلاف کوئی مقدمہ آجاتا ہے تو آپ دباؤ ڈالیں گے کہ میں آپ کی مرضی کا فیصلہ کروں اگر میں ایسا نہیں کروں گا تو آپ تو مجھے سمندر میں پھینکوا دیں گے جبکہ میرا مؤقف یہ ہے کہ میں انصاف کروں گا اور آپ کی مرضی کا فیصلہ کرنے کے بجائے سمندر میں پھینکے جانے کو پسند کروں گا۔ خلیفہ خاموش ہو گیا لیکن بات ختم نہیں ہوئی اس بحث میں ایک مرحلے پر جب ابو حنیفہ نے یہ کہا کہ میں اس عہدے کے لائق نہیں ہوں تو خلیفہ نے کہا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ نے کہا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں تو پھر آپ ایک جھوٹے شخص کو قاضی کیسے بنا سکتے ہیں۔آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو شخص قاضی یعنی جج بنایا گیا وہ بغیر چھری کے قتل کر دیا گیا۔خلیفہ منصور کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اس نے امام ابو حنیفہ کو جیل میں ڈالنے کا حکم جاری کیا اور کہا کہ امام کو اتنے کوڑے مارے جائیں کہ یہ قاضی بننے پر رضا مند ہو جائے تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ 110 کوڑے کھانے کے بعد اما م ابو حنیفہ کی ہمت ٹوٹ گئی آپ نے قاضی بننے کی حامی بھر لی لیکن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا خلیفہ منصور نے چیف جسٹس کو کہا کہ خلیفہ کے اختیارات میں من مانی توسیع پر فتویٰ جاری کیا جائے ابو حنیفہ نے حکم ماننے سے پھر انکار کر دیا۔آپ کو دوبارہ جیل میں ڈال دیا گیا اور 70 سال کی عمر میں جیل میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق جیل میں آپ کو زہر دے دیا گیا جس سے آپ کی موت واقع ہو گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے سب سے سینئر شاگرد امام ابو یوسف تھے سنی فقہ کا 90 فیصد حصہ ہمارے پاس امام ابو یوسف کی کتابوں کے ذریعے پہنچا ہے جب ان کی بار ی آئی تو انہوں نے چیف جسٹس کا عہدہ قبول کر لیا ان کا مؤقف امام ابو حنیفہ سے یکسر مختلف تھا وہ کہتے تھے کہ اگر میں بھی انکار کر دیتا تو کوئی نا اہل اور بدعنوان شخص کو اس سیٹ پر بٹھا دیا جاتا۔

آج پاکستان میں جو دور چل رہا ہے اس میں مروجہ نظام انصاف کا اسلامی تاریخ سے زیادہ تعلق نہیں ہے نہ تو یہاں خلاف ہے اور نہ فقہ اسلامی کا نفاذ ہے یہاں تو جمہوری ریاستی آئین کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قرار داد مقاصد کو چھوڑ کر آئین کا سارا ڈھانچہ امریکہ اور برطانیہ کے آئین کا مکسچر ہے البتہ ایک بات طے ہے کہ یہاں آج بھی ججوں پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ ریاستی عناصر کی مرضی کے فیصلے کریں پہلے یہ بات ڈھکی چھپی ہوتی تھی پریشر ہوتا تھا مگر کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی پھر ججوں کی آڈیو لیک کا دور آیا کہ فلاں بندے کو اتنی سزا دینی ہے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے والے ججوں میں سے ایک جج نے مرنے سے پہلے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کیس میں ان پر پریشر تھا لیکن اس سب کے باوجود ہمارا نظام انصاف کسی نہ کسی طریقے سے آگے بڑھتا رہا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس نظام کو انصاف کا دامن پکڑنا ہو گا۔

جسٹس شوکت صدیقی کی بطور جج برخاستگی کے فیصلے کو Revert کرنے اور ان کے مؤقف کو درست قرار دینے کے بعد حکمران جماعت نے اس فیصلے کی تائید کی مگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس ہفتے آنے والے بھونچال نے سب کچھ ملیا میٹ کر دیا ہے جس میں 6 جج صاحبان نے چیف جسٹس کو لکھا ہے کہ ان کے کام میں مداخلت کی جاتی ہے اور خفیہ کیمروں سے نگران کے جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ ان دو الگ الگ کیسز میں پہلے کیس میں حکومت اس کی حمایت کر رہی ہے جبکہ دوسرے کیس میں حکومت اس کی مخالف ہے یہی حال اپوزیشن کا ہے جہاں حکومت جس کی حمایت کرتی ہے اپوزیشن اس جج کی مخالف ہے اور جن 6 ججوں کی حکومت مخالفت کر رہی ہے اپوزیشن ان کی پشت پر کھڑی ہے گویا ہر جج ایسا لگتا ہے کہ کسی نہ کسی پارٹی کے ساتھ ہے۔

اس کہانی کا اہم ترین پارٹی چیف جسٹس صاحب سے متعلق ہے جنہوں نے معاملے کو اپنے سر سے ٹالنے کی خاطر ایک رکنی جوڈیشل کمیشن بنایا جس کی سربراہی ایک سابق چیف جسٹس جناب تصدق جیلانی کو مقرر کر دیا گیا۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ جسٹس تصدق جیلانی صاحب کی Consent لیے بغیر ہی نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ انہوں نے اس ذمہ داری سے معذرت کر لی اور اپنے جوابی خط میں اس کو ون مین کمیشن کا نام دیا جو متنازع بات تھی ساتھ ہی انہوں نے چیف جسٹس کو مشورہ بھی دیا کہ یہ کیس زیادہ ہائی لیول پر سنے جانے کا میرٹ رکھتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے عجلت میں از خود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی کمیشن مقرر کر دیا ہے جبکہ قانونی حلقے فل کورٹ ریفرنس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ نظام انصاف اب Make or Break جیسی نازک صورتحال کا شکار ہے کہ کس طرح جج صاحبان کو پریشر سے بچایا جائے اور ادارے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت سے گریز کریں۔ عمران خان نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جس جج نے دوران عدت نکاح کیس میں انہیں سزا دی ہے اس پر بھی ذاتی پریشر اتنا زیادہ تھا کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ یاد رہے کہ مذکورہ فیصلے کی واضح تکنیکی خامیوں کی بنا پر اعلیٰ عدالت کی طرف سے یہ سزا معطل کرنے کا حکم جاری کیا جا چکا ہے۔

جب تک سول سوسائٹی وکلاء تنظیمیں سیاسی جماعتیں اور میڈیا جج صاحبان کے مؤقف کی حمایت نہیں کرتے نظام میں تبدیلی یا نظام میں ہموار طریقے سے چلنے کی ضمانت مشکل ہے مگر حتمی فیصلہ جج صاحبان کو خود کرنا ہے۔ اگر وہ پریشر برداشت نہیں کر سکتے تو گھر چلے جائیں ان کے سامنے امام ابو حنیفہ کی legal precedent تاریخی طور پر موجود ہے۔

تبصرے بند ہیں.