پاکستان انصاف کی تلاش میں

51

پاکستان میں زیادہ سے زیادہ انصاف ہر طاقت ور کو چاہیے حالانکہ اُس کی موجودہ منہ زور طاقت کا محور و مرکز ہی عام آدمی کو انصاف کی عدم دستیابی سے جڑا ہوا ہے۔ انصاف کے یہ شیش محل عوامی پتھروں کے منتظر ہیں جو کسی وقت بھی حکمرانوں کی لاپروائی اور ضروری کاموں کی غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے مسمار یا پھر ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ پاکستان کے ججوں کے ساتھ بڑی نا انصافی ہو رہی ہے یعنی جنہوں نے انصاف فراہم کرنا ہے وہی انصاف نہ ملنے کا واویلا مچا رہے ہیں حالانکہ یہی وہ جج صاحبان ہیں جنہوں نے ہر جابر اور غیر آئینی حکمران کو غیر ضروری اور غیر آئینی انصاف ہنگامی بنیادوں پر فراہم کیا اور آج وہ آگ اِن کے اپنے گھروں تک آن پہنچی ہے۔ انصاف پاکستان کے جرنیلوں کو بھی چاہیے کہ جج اُن سے غیر ضروری سوال پوچھتے ہیں یا پھر انہیں عدالتوں میں طلب کرنے کی نئی روایت کو جنم دینا چاہتے ہیں یقینا جو آج سے پہلے نہیں ہوا وہ نیا ہے اور ہر نئے کام کی طرح اسے بھی نا انصافی ہی سمجھا جائے گا جبکہ آئین کہتا ہے کہ ریاستِ پاکستان کا ہر ادارہ عدالت کو جوابدہ ہے لیکن جب آپ نے 76 سال تک انتظامی اداروں کو عدلیہ کے سر پر بٹھائے رکھا ہے تو اب مشکل توآئے گی، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ انصاف پاکستان کے بیوروکریٹس کو بھی چاہیے کہ سب کچھ ڈکار کر بھی وہ پاکستان کو لا ولد کا خزانہ سمجھ رہے ہیں کہ ابھی اِس میں سے جو چاہیں لوٹ لے جائیں گے اور کوئی پوچھے گا نہیں۔ پاکستان ایک مہا بحران کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن فی الحال انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی لڑائی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا تو اِس کو سمجھنے کیلئے زیادہ عقل کی ضرورت نہیں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی جنگ کی فاتح ہمیشہ انتظامیہ ہی ہوتی ہے کیونکہ اصل طاقت یا تو اِن کے پاس ہوتی ہے یا احکامات پر عمل درآمد کی صورت میں جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی انہوں نے ہی مرضی سے فراہم کرنا ہوتی ہے۔ قلم اور تلوار کی جنگ میں آخری فتح قلم کی ہی ہوتی ہے لیکن آخری فتح سے پہلے کی دو تین سو جنگیں انتظامیہ ہی جیتتی ہے کہ یہی تاریخی سچ ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب جسٹس شوکت صدیقی کو فارغ کیا گیا تو یہی عدالت جو اب مرزا اسد اللہ خان غالب کی جانشین بن کر شاعری (فیصلوں) سے خطوط پر اتر آئی ہے، شوکت صدیقی سے لا تعلق ہو گئی تھی بلکہ لاتعلق تو چھوٹا لفظ ہے اُس کا حقہ پانی بند کر دیا تھا۔ کل تک ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پاکستان کے سیاہ و سیاہ کا مالک و مختار تھا لیکن اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ اُس وقت بھی یہی عدالت تھی اور انہیں ججوں کی اکثریت اسلام آباد ہائیکورٹ میں تشریف فرما تھی۔ ہم نے وہ منظر بھی اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھے ہیں کہ ملزم کی حیثیت سے پیش ہونے والے شخص کو کمرہ عدالت میں مقام ملزم پر کھڑے دیکھ کر چیف جسٹس آف پاکستان کہہ رہا تھا ’’گڈ ٹو سی یو‘‘۔ ہم نے اسی سپریم کورٹ سے ملزم کو اُن مقدمات کی ضمانت بھی ملتے دیکھی جو اُس نے اُس وقت تک کیے ہی نہیں تھے۔ عدالتوں نے ضمانتوں کا لُنڈا بازار لگا رکھا تھا لیکن اُس کے بعد بھی بضد تھے کہ انہیں قابلِ عزت سمجھا جائے۔ پاکستان کے تمام طاقتوروں کو انصاف کی ضرورت ہے اور اگر کوئی اس ملک میں ایسا ہے جسے انصاف ہرگز ہرگز نہیں چاہیے تو وہ پاکستان کا عام آدمی ہے۔ آپ اُسے دونوں ہاتھوں سے کوئی بھی حکومتی یا ریاستی پالیسی بنا کر لوٹ سکتے ہیں۔ آپ مٹی ملا آٹا سونے کے بھائو بیچ رہے ہیں لیکن یہ عین انصاف کے مطابق ہے۔ آپ نے بجلی کے یونٹ پر پونے تین روپے فی یونٹ بڑھا دیا ہے جس سے دوسرے ٹیکسوں میں بھی اضافہ ہو گا لیکن آپ نے یہ سب کچھ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کا دعویٰ کرنے والوں کے تمام دعوئوں کی قلعی کھل بلکہ اتر چکی ہے لیکن حکمرانوں کو شاباش ہے کہ انہوں نے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ 9 مئی کے ملزمان کے یونیفارم تبدیل ہونا شروع ہو چکے ہیں جس کی پہلی کھیپ گوجرانوالہ سے لی گئی ہے اور عین انصاف کے مطابق انہیں سزائیں سنا دی ہیں۔ مجرم کوئی بھی ہو اور اُس کا تعلق کسی بھی جرم، جماعت، گروہ یا قبیلے سے ہو میں مجرموں کی سزا کا سب سے بڑا حمایتی ہوں لیکن جناب! پاکستانی عوام جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا انہیں کس جرم کی سزا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ذلت کا ہر منظر دیکھ رہے ہیں؟ پاکستان کے مزدوروں، کسانوں، ٹھیلے والوں، چھوٹے سرکاری ملازموں کا کیا قصور ہے انہوں نے نہ تو کسی کور کمانڈر ہائوس پر حملہ کیا ہے، نہ کبھی طالبان کے ساتھی رہے ہیں، نہ کبھی سی پیک روکنے کی کوشش کی ہے، نہ اُن کے ذمہ کسی بنک کا قرض ہے اور نہ ہی یہ مظلوم آپ کے کسی جائز نہ جائز کام میں بولتے ہیں، تو پھر انہیں کس جرم کی سزا ہے کہ انہیں زندگی، زندگی سے بھی مہنگی قیمت پر دی جا رہی ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور دوسری طرف مہنگے ترین ہیلی کاپٹر کی دھوم، افسر شاہی کے اخراجات میں کوئی کمی نہیں آئی، رشوت اور کرپشن کا بازار ویسے ہی گرم ہے، پروٹوکول کی گاڑیاں ہیں کہ اُن کی قطاریں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ دوسری طرف عام آدمی کی صورت حال یہ ہے کہ معلوم نہیں کہ اُسے روزے کا اتنا ثواب ملتا ہے یا نہیں جتنا وہ حکمرانوں اور اپنا نظام چلانے والوں کو گالیاں بک کر اپنے نامہ اعمال میں لکھوا لیتا ہے۔ کتنا بُرا سماج بنا دیا ہے آپ سب نے مل کر کہ پاکستان کے عام آدمی کو افغانستان کی طالبان حکومت اچھی لگنا شروع ہو گئی ہے حالانکہ طالبان کے پاکستانی حمایتیوں میں سے ایک نے بھی ابھی تک افغانستان کی طرف ہجرت نہیں کی کہ اپنے لائے ہوئے نظام کی اصل شکل تو دیکھ کر آئیں یا کم از کم اپنی بقیہ زندگی تو انپے لائے ہوئے نظام کے مطابق گزار سکیں۔ بہرحال پاکستان کے گرد و نواح میں تو کھیل تماشے دہائیوں سے چل رہے ہیں اور ہمارا اُن سے ڈائریکٹ تعلق بھی نہیں لیکن جو کچھ ہم نے پاکستان میں شروع کر رکھا ہے کیا کوئی مائی کا لعل اِس کی گارنٹی دے سکتا ہے کہ آپ کا مستقل جبر اور انصاف کی ذاتی خواہش دیر تک آپ کے اِس فرسودہ اورکانپتے ہوئے نظام کو قائم رکھ سکیں گے تو میں ایسا خیال نہیں کرتا۔ یہ ملک قربانیوں سے بنا تھا اور قربانیوں پہ ہی چل رہا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ قربانیاں ہمیشہ پاکستان کے غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہیں، کبھی تو ہم بھی یہ منظر دیکھیں کہ پاکستان کے حکمرانوں اور دوسرے بالا دست طبقات نے بھی اپنے مظلوم عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر قربانی دی ہے لیکن شاید یہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے اگر ہم بالا دست طبقات کو زیادہ سے زیادہ انصاف فراہم کر دیں کیونکہ اِس سے پہلے دیا گیا انصاف ہرگز انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں تھا جس کی زندہ مثال موجودہ بچا کھچا مفلوک الحال پاکستان آپ کے سامنے ہے۔ انصاف کی ضرورت صرف اورصرف پاکستان اور پاکستانیوں کو ہے باقی سب فضول اور لایعنی گفتگو کے سوا کچھ نہیں۔

تبصرے بند ہیں.