’’وسے چیت، نہ گھر مُکے نہ کھیت‘‘

167

پنجابی کی یہ کہاوت بہت عرصہ قبل اپنے مرحوم والد گرامی یا اُن کے کسی ساتھی بیلی جنہیں ہم تایا یا چچا کہہ کر پکارا کرتے تھے سے سنی تھی۔ اس کا مطلب اور مفہوم سادہ اُردو زبان میں کیا نکلتا ہے اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ پہلے ان تایوں، چاچوں کا تھوڑا سا ذکر کہ عشرے گزرنے کے باوجود اُن کو یاد کرتے ہوئے جہاں دل احترام کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے وہاں آنکھیں بھی پُر نم ہو جاتی ہیں۔ یہ سب ان پڑھ یا انتہائی معمولی پڑھے لکھے سادہ، صاف، سُچے، محنتی اور جفاکش کسان تھے جن کی کل کائنات اُن کے کھیت، کھلیان، فصلیں، مال مویشی، ڈھور ڈنگر اور جانور تھے۔ فصلیں ان کے لیے ایسی ہی تھیں جیسے نظم کے مشہور شاعر مجید امجد مرحوم نے اپنی ایک لافانی نظم میں کہہ رکھا ہے۔ ’’ہری بھری فصلو / جُگ جُگ جیو، پھلو / شہر شہر اور بستی بستی جیون سنگ بسو / دامن دامن، پلو پلو، جھولی جھولی ہنسو / چندن روپ سجو / ہری بھری فصلو / جُگ جُگ جیو، پھلو‘‘۔ فصلیں کیسے پھلے پھولیں کیسے چندن کی طرح سنہری روپ اختیار کریں، کیسے کسان کا گھر ان کی پیداوار سے بھر جائے۔ یقینا اس کے لیے جہاں کسان کی محنت، ہل چلانا، کھیت تیار کرنا، بیج بونا اور فصل کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں خالق کائنات کا فضل و کرم، اس کی طرف سے وقت پر بارشوں کا برسانا اور موافق موسمی حالات کا عطا کرنا بھی اس سے بڑھ کر ضروری ہوتا ہے۔ ’’وسے چیت، نہ گھر مُکے نہ کھیت‘‘ کی پنجابی کہاوت جو اُوپر بیان ہوئی ہے اس میں ان ہی موزوں موسمی حالات اور بارشوں کے برسنے کی طرف اشارہ ہے۔ ’’چیت‘‘ بکرمی سال جسے دیسی سال بھی کہتے ہیں کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ انگریزی یا عیسوی سال کے نصف مارچ سے نصف اپریل تک کے دنوں پر پھیلا ہوتا ہے۔ مارچ، اپریل موسم بہار کے جوبن کے دن ہوتے ہیں۔ کہاوت میں کہا جا رہا ہے کہ اگر چیت کے مہینے میں یعنی نصف مارچ سے نصف اپریل تک کے دنوں میں بارش برسے تو اس کا اس موسم کی فصلوں جو، چنے، سرسوں بالخصوص گندم کی پیداوار پر بہت ہی اچھا اثر پڑتا ہے۔ پکنے پر پیداوار اتنی ہوتی ہے کہ یہ گھروں میں ’’مُکتی‘‘ یعنی کم پڑتی ہے نہ ہی کھیتوں میں کم پڑتی ہے۔ گھر، کھیت، کھلیان سب اس سے بھر جاتے ہیں۔

مجھے اپنے بزرگوں کی سُنائی ہوئی یہ کہاوت رہ رہ کر اس لیے یاد آ رہی ہے کہ بلاشبہ پچھلے کئی برس سے چیت میں بارشیں برستی رہی ہیں۔ اس سال بھی جو رمضان مبارک کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے، برستی بارشوں کا ساماں لے کر آیا ہے۔ ان دنوں جب چیت کا پہلا نصف گزر چکا ہے تو پنڈی اور اس کے نواح میں ہی نہیں بلکہ پوٹھوہار کے تقریباً پورے خطے میں بلکہ اس سے بڑھ کر ملک کے وسیع علاقوں میں چھم چھم برستی کالی گھٹاؤں کا کچھ ایسا ہی عالم رہا ہے۔ میں اپنی بات کروں تو یہ حقیقت ہے کہ ان دنوں کالی گھٹائیں خاص طور پر جنوب مشرق سے اُٹھنے والی سیاہ چادر اوڑھے بادل دیکھ کر دل لرزنے لگنے لگتا ہے کہ الٰہی خیر، زیادہ تیز بارش ہوئی اور اس کے ساتھ ژالہ باری بھی ہو گئی تو پھر گندم کے پودوں اور ان کے لہلہاتے سنہری سٹوں، بالیوں اور خوشوں کا کیا ہو گا۔ وہ تو ٹوٹ اور بکھر کر رہ جائیں گے۔ زیادہ بارش کی صورت میں ان کی رنگت سنہری سے تبدیل ہو کر کچھ سیاہی مائل ہی نہیں ہو جائے گی بلکہ دانے بھی کچھ خراب، کمزور اور ان کی رنگت میں بھی چمک اور شفافیت میں کچھ کمی آ جائے گی۔

گندم کی فصل کو بلا شبہ 15چیت (مارچ کے آخر) سے تیز دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس دوران گندم کے لہلہاتے کھیت جہاں بتدریج سنہری رنگت اختیار کرتے ہیں وہاں ان کے خوشے اور سٹے بھی سنہری روپ اختیار کرتے اور ان خوشوں، سٹوں اور بالیوں میں پڑے دانے بھی سورج کی دھوپ سے حرارت اور توانائی حاصل کرتے ہوئے گداز، مضبوط اور توانا ہوتے ہیں۔ یہ نظام قدرت ہے کہ رب کریم جیسے چاہتے ہیں ایسا ہی ہوتا ہے۔ تاہم اگر روشن دنوں کی پھیلی دھوپ، سورج کی تپش اور حرارت، ہواؤں کا چلنا اور ہفتے دس دنوں کے بعد ہلکی پھلکی بارش مناسب انداز میں ہوتی رہے تو پھر گندم کے لہلہاتے کھیتوں کا کیا کہنا۔ ان کی رنگت بتدریج سبز سے سنہری، ان کی بالیاں، سٹے اور خوشے مضبوط، توانا اور موٹے دانوں سے بھرے ہوئے۔ یہ ایسا ہی عالم ہوتا ہے جیسے اس پنجابی کہاوت ”وسے چیت، گھر مُکے نہ کھیت“ میں کہا گیا ہے۔ اس طرح بہترین پیداوار والی گندم کی شاندار فصل پک کر تیار ہوتی ہے اور کھیتوں کھلیانوں میں ہی اناج کے ڈھیر نہیں لگ جاتے ہیں بلکہ کسانوں اور زمینداروں کے گھر وں میں اناج کے ان ڈھیروں کو سنبھالنا سمیٹنا اور ذخیرہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اللہ کریم کا احسانِ عظیم کہ اس بار کم و بیش پورے ملک بالخصوص پوٹھوہار کے اس بارانی خطے میں جہاں اب کچھ کچھ آبپاشی کا نظام بھی وجود میں آ چکا ہے، گندم کی انتہائی شاندار اور پُر بہار فصل بارآور ہونے کو ہے۔ گاؤں آتے جاتے اڈیالہ روڈ پر اور اس کے نواح میں گندم کے سنہرے لہلہاتے کھیت دیکھ کر جہاں دل باغ باغ ہوتا اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے وہاں ربِ کریم کے حضور اظہارِ تشکر کے لیے دل ممنونیت، شکرگزاری اور احسان مندی کے جذبات سے بھی بھر جاتا ہے۔ گندم کی توانا اور بھرپور فصل کے سنہرے لہلہاتے کھیتوں کو دیکھنا بلا شبہ میرے جیسے کسان گھرانے کے فرد کے لیے اسی طرح کے جذبات اُبھارتا ہے جیسے اُردو نظم کے مایہ ناز شاعر مجید امجد مرحوم نے اپنی خوبصورت ’’ہری بھری فصلو‘‘ میں عکاسی کی ہے۔

سچی بات ہے قدرت ہمیشہ سے ہم پر مہربان رہی ہے اور رہتی ہے لیکن ہم ناشکرے انسان اس کی مہربانیوں، اس کے عنایات اور اس کی کرم فرمائیوں کا جواب شکر گزاری اور اس کے احکامات کی تعمیل کی صورت میں دینے کے بجائے ناشکرے پن اور نافرمانی کی صورت میں جہاں دیتے ہیں وہاں اس کے قائم کردہ وسیع اور مبسوط نظام کائنات کو بھی خراب اُتھل پتھل کرنے سے دریخ نہیں کرتے ہیں۔ پچھلے کئی عشروں سے ہم نے فضا میں اتنی زیادہ آلودگی، سموگ، گرد و غبار، دھویں اور تابکاری اثرات کو ملا دیا ہے کہ جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں پھیلتی ہی نہیں جا رہی ہیں بلکہ ہمیں بُری طرح متاثر بھی کر رہی ہیں۔ اللہ کریم سے التجا ہے کہ وہ ہمیں ہدایت سے نوازے اور ہمیں اپنے فضل و کرم کا حقدار بنائے رکھے۔

تبصرے بند ہیں.