رمضان المبارک اور لاہور چیمبر کی افطاری

22

اپنی برکتوں، رحمتوں، خوشیوں اور محبتوں کو بکھیرتا الحمد اللہ…رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ دوسرے عشرے سے ہوتا ہوا اب تیسرے عشرے میں داخل ہونے والا ہے۔ یکم رمضان سے لے کر آج تک افطاریوں کا سلسلہ ہے کہ وہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ روزانہ افطاریوں کے اتنے دعوت نامے جب دیکھتے ہیں تو پھر بات آ جاتی ہے کہ کس دعوت افطار میں کہاں جائیں، کہاں نہ جائیں۔ غالباً رمضان المبارک کا یہ واحد مہینہ ہے جس میں ہم نے پرائیوں کو اپنا بنتے ہوئے دیکھا اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ افطاری کے موقع پر شریک محفل جو ایک دوسرے کے حریف بھی ہوتے ہیں اپنی تمام رنجشیں بھلا کر کم از کم افطاری کی خوبصورت محفلوں میں ضرور حاضری لگواتے ہیں۔ اسی طرح افطار پارٹی کا ایک بھرپور مظاہرہ 16 ویں رمضان المبارک میں لاہور چیمبر کے وسیع میدان میں افطاری کے موقع پر دیکھا گیا۔ یوں تو لاہور چیمبر کی بڑی شاندار روایات ہیں، جو کہیں نہ کہیں اپنی انہی روایات کے تحت بھرپور میٹنگز میں ہوتی نظر آتی ہیں لیکن کل ایک بہت ہی عجب اور خوبصورت منظر تھا جب لاہور چیمبر کی چار دیواری کے باہر سے لے کر چار دیواری کے اندر تک لوگوں کی افطاری میں بھرپور شرکت کو دیکھا اور ہمیں تو یوں لگ رہا تھا کہ یہ افطاری کم کوئی بڑا جلسہ ہے یعنی ایک ہزار سے زائد افراد نے بھرپور شرکت کرکے اس کی رونق کو اور بڑھا دیا۔

اس افطار تقریب کا اہتمام لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے اپنے رفقاء کاروں کے ساتھ مل کے کیا تھا۔ کاشف انور کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے ایسی ہی خوبصورت محفلیں سجانے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ان کی ہر محفل خودبخود رنگوں سے بھر جاتی ہے۔ جہاں تک کل کی افطار پارٹی کا تعلق ہے تو دیکھا جائے تو یہ پیاف، فائونڈرز کا باہمی اشتراک اور محبتوں بھری روایات کا ایک حصہ تھا۔ میاں مصباح الرحمن سے لے کر انجم نثار تک اور انجم نثار سے لے کر تمام بڑے گروپس کے تاجروں تک سب چہرے خوش دکھائی دیئے۔ کس کس کا نام لوں، طویل فہرست ہے یہاں تالیاں بھی بجیں، رمضان المبارک کے حوالے سے گفتگو بھی سنی گئی اور اسی دوران دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ جو ایک دوسرے کے کاروباری نہیں بلکہ سیاسی مخالفین بھی تھے وہ بھی اس انداز سے یہاں نظر آئے ار یوں لگا کہ کاشف انور نے یہ محفل نہیں سجائی بلکہ اس محفل میں ان سب کا حصہ ہے جو اس میں شریک ہوئے۔ نہ کوئی مہمان نہ کوئی میزبان اور نہ کسی نے صدارت کی کہ سبھی میزبان بھی تھے اور مہمان بھی۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں جب اس طرح کی محفلیں سجائی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت یوں بھی مہربان نظر آتی ہے کہ وہ اپنی محفل خود ہی سجا دیتا ہے۔ جہاں تک لاہور چیمبر کی اس پروقار روح پرور تقریب کا تعلق ہے تو میرے نزدیک شاید یہ 2024ء میں تاجر برادری کا پہلا افطاری شو تھا جس میں تاجروں کی دونوں تنظیمیں فائونڈرز اور پیاف کی طرف سے تمام لیڈرشپ سب نے بھرپور شرکت کی۔ اختلافات اپنی جگہ، محبتیں اپنی جگہ، لیکن ہمیں ایک اور بات نے یہ بات کہنے پر مجبور کیا کہ کاش تاجر حضرات سیاست بازی سے ہٹ کر الزام تراشیاں نہ کرتے ہوئے اسی طرح اکٹھے ہوتے رہیں تو پھر تاجر برادری کے اختلافات خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ چلتے چلتے یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ لاہور چیمبر کے انتخابات جو ستمبر 2024ء کو ہونے جا رہے ہیں اور ابھی ان انتخابات کے درمیان پانچ سے چھ ماہ کا وقفہ ہے لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ آنے والا یہ انتخاب چیمبر کی تاریخ میں بڑا اہم کردار ادا کرے گا۔ جہاں پیاف نے اپنا صدر نامزد کرنا ہے وہاں 32 ای ممبرز کی سلیکشن بھی ہونی ہے۔ جوڑ توڑ کے سلسلے جاری و ساری اور افواہوں کا بازار گرام ہے، کون کس کی طرف جائے گا، کون کس کی مخالفت کرے گا اور کون کس کا ساتھ دے گا، ابھی سب چیزیں صیغہ راز میں ہے کہ شاید سیاست کا ابھی یہ موسم نہیں ہے۔ یہ بات اس لئے کہی کہ جو منظر ہماری آنکھوں نے 16 ویں رمضان المبارک کی شام کو دیکھا کہ جب سب ایک دوسرے کو خوشی کے ساتھ مل رہے تھے تو سوچ رہا تھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آنے والے انتخابات کے موقع پر بھی ہمیں ایسے ہی بھرپور منظر دیکھنے کو ملیں۔ یہ درست ہے کہ ملکی سطح سے لے کر تاجر برادری کے انتخابی سسٹم تک اختلاف رائے کا ہونا ہی سب سے بڑا حسن ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ یہ اختلافات ذاتیات سے ہٹ کر صرف الیکشن پرفارمنس کی حد تک محدود رہیں اور وہ ایسی ہی مثال قائم کریں جو کل ہم سب نے دیکھی۔

یہاں میں صدر کاشف انور کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دوں گا کہ انہوں نے فائونڈرز کے پلیٹ فارم پر یہ پیغام دے کر کہ ہم سب متحد ہیں اور اگر اسی طرح ایک رہیں گے تو شاید پھر کہیں بھی اختلافات کی گنجائش نہ رہے۔ یاد رہے کہ کاشف انور اپنی صدارت کی دو سالہ مدت کے آخری پانچ ماہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ دوران صدارت انہوں نے لاہور چیمبر کی نہ صرف تاریخ بدلی، روایات بدلیں، سسٹم بدلا، بیشمار اختلافات کے باوجود سب کو متحد کرنے کی کوشش کی اور آج اگر پیاف فائونڈرز ایک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ جس کا کل ایک بھرپور مظاہرہ دیکھا گیا۔ لگتا ہے کہ اگلے پانچ چھ ماہ کے اندر بھی پیاف اور فائونڈرز کے مزید تعلقات بہتر نظر آئیں گے۔

اور آخری بات…

آج شام ایک گیت سن رہا تھا :
سجناں اے محفل اساں تیرے لئی سجائی اے

تو میری نظریں کل شام اس پروقار تقریب کی طرف چلی گئیں جہاں ہر بشر اس محفل کی رونق بنتا نظر آیا۔ شاید اسلام کا یہی ایک پیغام ہے کہ آپس میں گلے ملتے رہنا بھی تمام رنجشوں کو انسان سے دور کر دیتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس طرح کی محفلیں تاجروں کی تمام تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے میں بڑی مددگار ثابت ہوں گی۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات…

تبصرے بند ہیں.