مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ نفسا نفسی کے اس دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو انسانوں کی پرواہ تو الگ جانوروں کے ساتھ اتنی محبت و انسیت رکھتے ہیں۔دیوانوں کی طرح جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سرگرم، بدر منیر اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے یہ شخص کئی برسوں سے جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سرگرم ہیں، وہ پنجاب وائلڈلائف کے سابق اعزازی گیم وارڈن اور ٹاسک فورس کے سربراہی سمیت مختلف اعزازی عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔انہوں نے انفرادی طور پر مختلف جنگلی انواع خاص طور پر ناپیدی کے خطرات سے دوچار انواع سے متعلق آگاہی اور ان کے تحفظ کے لئے 20 دستاویزی فلمیں تیار کی ہیں۔
بدرمنیر اب تک سالٹ رینج کی حیاتیاتی تنوع، جنگل کا محافظ، صحرائی ٹڈی دل، ماربلڈ بطخ، زندگی کا دریا، سٹیپ ایگل، گریٹ انڈین تلو، دی ڈنگ بیٹل، بھیڑیا سانپ، صاف پانی کی شہزادی، معاون مکڑی، بلیک ونگ سٹیلٹ، ہڑیال، جامنی سن برڈ، منگوز کی دکھ بھری کہانی، سکیلڈ وائپر، اورینٹل میگپی رابن، درزی پرندہ، وائٹ آئیڈ بزارڈ اور گرے ہارن بل سے متعلق دستاویزی فلمیں بناچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دستاویزی فلمیں بنانے کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ پاکستان کی سرزمین وائلڈلائف سے مالامال ہے لیکن بدقسمتی سے
موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں، جنگلات اور قدرتی مساکن میں کمی کے باعث ہم دن بدن جنگلی حیات سے ہاتھ دھوتے جارہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ دستاویزی فلمیں کسی حکومتی ادارے، این جی او کی مدد کے بغیر تیار کی گئی ہیں۔ وہ کینیڈا اور امریکا سمیت مختلف ممالک میں ان دستاویزی فلموں کے نمائش کرچکے ہیں جبکہ پاکستان میں کئی بڑے تعلیمی اداروں میں طلبا وطالبات کی آگاہی کے لئے ان فلموں کی نمائش کی جاچکی ہے۔
یہ،جنگلی حیات اور ان کے تحفظ کے لئے سرگرداں رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی تعلق سے بالاتر ہو کر پاکستان کی محبت اور اس سر زمیں کو مزید بہتر سے بہتر بنا نے کی سعی میں لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے جو یہ بالکل مفت فراہم کرتے ہیں اور کسی قسم کی تنخواہ اور دیگر کوئی مراعات حاصل نہیں کرتے، ہر دور میں محکمہ جنگلی حیات کی پالیسی ساز کمیٹیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کی زیر نگرانی محکمے میں اصلاحات ہوئیں اور دیگر بہت بڑے بڑے کام اپنے انجام کو پہنچے۔ اسی طرح لاہور سفاری زو اور لاہور زو میں حالیہ انقلابی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی ان کی خدمات ہیں۔حالیہ دنوں میں میرا لاہور سفاری زو جانا ہوا۔ میں حیران رہ گیا کہ کیسے اگر ایک ادارے میں قابل اور ایماندار لوگ موجود ہوں تو اتنا خوبصورت اور بڑا کام ہو سکتا ہے، سفاری زو کا یہ حصہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا حصہ لگ رہا تھا۔ یقین جانئے مجھے تو اپنی نظروں پر کافی دیر تک یقین نہیں آیا کہ کس قدر شائستگی وخوبصورتی کے ساتھ فن تعمیر میں ایک شاہکاربنایا گیا ہے۔
میں اس کالم کے توسط سے عوامی وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز سے گذارش کروں گا کہ بلا شبہ جیسے آپ نے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کو، مدثر ملک کی صورت میں ایک انقلابی ڈائریکٹر جنرل دیا ہے،جو جہاں بھی گئے، اپنے بہترین کاموں کی وجہ سے تاریخ رقم کر کے گئے، مجھے یقین ہے کہ یہاں بھی وہ ایسے انقلابی کام سر انجام دیں گے کہ تاریخ اسے یاد رکھے گی۔ویسے ہی ان کے ساتھ بدر منیر کو بھی کوئی کلیدی کردار دیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دونوں حضرات آپ کے ویژن کے مطابق محکمے کومزید بہتر بنا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
وہ یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی خاص طور پرپنجاب وائلڈلائف کی ذمہ داری ہے کہ و ہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ ان دستاویزی فلموں کی سرکاری سطح پر نمائش کی جاسکتی ہے، وہ اس کام کو کوئی معاوضہ نہیں لیں گے، ان کا مقصد صرف اتنا ہے کہ نوجوان نسل کو جنگلی حیات سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی دی جائے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ان انواع کو بچاسکیں۔واضع رہے کہ پنجاب وائلڈلائف نے آج تک صوبے میں پائی جانیوالی کسی بھی جنگلی انواع سے متعلق کوئی دستاویزی فلم تیارنہیں کی ہے۔ انفرادی طور پر کسی شہری نے دستاویزی فلمیں تیارکرکے ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے۔
تبصرے بند ہیں.