پاکستان میں ہونیوالے انتخابات کا آنکھوں دیکھا حال لکھا تھا۔ اب میں واپس امریکہ آچکا ہوں جہاں اب نومبر میں وقت پر انتخابات ہوں گے۔ یہاں ہر چار برس بعد وقت مقررہ پر انتخابات ہوتے اور اسی طرح جمہوریت کا سفر جاری رہتا ہے۔ چند ہفتوں پہلے تک یہ کہنا مشکل تھا کہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کے طور پر کس کی تقرری ہوگی۔ مضبوط امیدوار تو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھے مگر ان پر اتنے مقدمات تھے کہ ان کا امیدوار ہونا مشکل نظر آرہا تھا۔ ویسے بھی ایک ریاست کی عدالت نے ٹرمپ کے خلاف فیصلہ بھی سنا دیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ ٹرمپ شائد اب صدارتی امیدوار ہونے کے قابل نہ رہیں۔ مگر پھر ملک کی سپریم کورٹ نے اس ریاستی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے ٹرمپ کے امیدوار ہوجانے کی تصدیق کردی اور اب وہ ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں سب سے آگے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدر جو بائیڈن ایک بار پھر صدارتی امیدوار ہیں اس لئیے ان کے مقابلے میں کوئی نہیں۔
اندازہ یہی لگایا جارہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ امیدوار رہے تو صدر بائڈن کا جیتنا بہت مشکل ہوگا۔ ایک تو یہ کہ بائیڈن کی خارجہ پالیسی سے عام لوگ خوش نہیں۔ دوسرے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت موجودہ انتظامیہ سے سخت ناخوش ہے۔ اس کی وجہ بائیڈن حکومت کی اسرائیل کے بارے میں پالیسی ہے۔ خاص طور سے غزہ میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف امریکہ کا کوئی رد عمل نہیں آیا بلکہ وہ کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتا رہا۔ امکان یہی ہے کہ تمام امریکی مسلمان جو بائیڈن کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اگر تمام مسلمان ٹرمپ کو ووٹ نہ بھی دیں تب بھی بائیڈن کو مسلمان ووٹ نہیں ملے گا۔ اس کا فائدہ ٹرمپ کو ضرور ہوگا۔ گو کہ خارجہ پالیسی میں دونوں سیاسی جماعتیں خاص طور سے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک ہی پالیسی اختیارکرتی ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اپنے پچھلے چار سالہ دور میں ایران سمیت کسی مسلم ملک کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی پاکستان پر کوئی ڈرون حملہ کیا۔ امریکہ کی معیشت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔
اب جائزہ لیتے ہیں کہ اگر امریکی انتخابات کے نتیجے میں رجیم چینج ہوتا ہے تو کیا اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا؟ کیا امریکہ عمران خان کو سیاسی ریلیف دلواسکے گا؟ پاکستان کے ایک سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ امریکی حکومت کسی ملک کی اندرونی انتظامی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ حقانی کا شمار عمران خان کے مخالفین میں ہوتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو امریکہ بالواسطہ طور پر پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ حسین حقانی جب خود میمو گیٹ سکینڈل میں پاکستان میں مقدمات بھگت رہے تھے اور ان پر ملک چھوڑنے پر پابندی تھی کسے نہیں معلوم کہ جان کیری، جان مکین وغیرہ کی مداخلت پر انہیں ریلیف ملا تھا اور یہ امریکہ واپس آنے کے بعد دوبارہ پاکستان نہیں جا سکے تھے حالانکہ پاکستانی عدالت نے انہیں واپس آنے کو بھی کہا تھا۔ پھر یہ دیکھئے کہ ایٹم بم کی تیاری کے مرحلے پر کیا ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کو عبرت کا نشان بنا دینے کی دھمکی نہیں دی تھی؟ اور پھر بھٹو کا کیا انجام ہوا سب کے سامنے ہے۔ افغانستان کے معاملے میں جنرل ضیا کا امریکہ سے اختلاف پھر صدر ضیا کے طیارے کا حادثہ کس کو یاد نہیں کہ جس میں امریکی سفیر کی جان بھی گئی۔
افغان معاملے ہی پر جنرل مشرف کو امریکی دھمکی کیا کسی کو یاد نہیں کہ آپ یا تو طالبان کی طرف ہیں یا ہماری طرف۔ اور پاکستان سے وہ کچھ کروایا گیا جو شائد پاکستان نہیں چاہتا تھا۔ پھر آگے آئیے ہم اور آپ جتنا بھی کہیں کہ سائفر کیس بالکل جھوٹ ہے مگر یہ تو حقیقت ہے کہ امریکہ نے کھلے عام عمران حکومت پر سخت تنقید کی تھی کہ وہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے باوجود روس کیوں گئے؟ یہ اعتراض بالکل بچکانہ تھا۔ کسی بھی ملک کا سربراہ کبھی بھی کسی ملک کے دورے پر جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ اس طرح کہ دورے طویل عرصے پہلے طے ہوتے ہیں۔ عمران خان کے اس دورے کو بلاول بھٹو زرداری نے بھی سپورٹ کیا تھا۔ اسی تناظر میں سائفر کیس رونما ہوا جسے کم از کم ہر سطح پر خطرناک تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ اور بحث ہے کہ ایسے معاملات کو پبلک کرنا چاہئے تھا یا نہیں۔
ان سب باتوں کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دور میں جب عمران خان امریکہ کے دورے پر آئے تھے تو یہاں ان کا ایسا والہانہ استقبال ہوا تھاکہ بھارتی لابی پریشان ہو گئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ میں کئی موقع پر بلکہ بھارت کے دورے کے دوران بھی پبلک جلسے میں عمران خان کو اپنا دوست قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ اور عمران خان دونوں اس وقت اپنے اپنے ملک میں سیاسی سختیوں کا شکار ہیں۔ یہ بات کیا ٹرمپ کے لئیے اہم نہیں ہوگی؟ یہ ایک جذباتی اور غیر سیاسی شخص ہیں۔ جس بات کو کہنا چاہتے ہیں بہ بانگ دہل کہتے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور موجودہ حکومت کی عمران خان سے عداوت صاف نظر آتی ہے۔ حالیہ پاکستانی انتخابات کے نتائج پر پہلے تو امریکی انتظامیہ کا محتاط تبصرہ تھا مگر حیرت کی بات ہے کہ اسقدر انتخابی بے قاعدگیوں کے باوجود اب امریکی انتظامیہ موجودہ پاکستانی حکومت کے بارے میں بہت خوش ہے۔ حالانکہ اسی امریکی انتظامیہ نے بنگلہ دیش میں ہونیوالے دونوں انتخابات کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ ان سارے حقائق کی روشنی میں یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ امریکی حکومت کی تبدیلی کی صورت میں اس کا اثر پاکستان کی سیاست پر ضرور پڑ سکتا ہے۔
پاکستان میں حکمراں جماعت اب کھلے عام اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ ان کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کی نہ صرف جیتی ہوئی نشستیں چھینی گئیں بلکہ ان کی مخصوص نشستیں بھی دوسری جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں ہیں۔ ایک طرف تو یہ حال ہے دوسری طرف تحریک انصاف کے عمران خان محاذ آرائی کی سیاست کو ترک نہیں کر رہے۔ البتہ تازہ ہوا کا جھونکا ابھی ابھی آیا ہے کہ خیبر پختون خوا کے پی ٹی آئی کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور وزیر اعظم شہباز شریف سے ملے ہیں۔ ن لیگ کے بعض رہنما اس ماحول کو سبوتاژ بھی کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس تبدیلی کا خیر مقدم کرنا چاہئیے۔ شہباز شریف بھی مفاہمت کے لئے مشہور ہیں۔
تبصرے بند ہیں.