چلیں اچھا ہے، دیرآئد درست آئد کے مصداق، بالاآخرشہبازحکومت نے گرین پاکستان کیلئے حکمت عملی تیارکرلی ہے، جس کے تحت اب دیہی اورشہری ترقی کیلئے دوالگ الگ منصوبے بنائے ہیں جس کے تحت معاشرتی تنائو کو ختم کرنے کیلئے وسیع پیمانے پراقدامات کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے جس سے امیر اور غریب کے بڑھتے فرق کو ابتدائی طور پر روکنے میں مدد ملے گی، جومڈل کلاس، لوئرمڈل کلاس اور معاشرے کے محکوم طبقے کیلئے بہت حوصلہ افزاء ہے، بنیادی طورپر ایسے ترجیحی اقدامات کی کئی ملک کوکئی دہائیوں پہلے ضرورت تھی مگرسیاسی افراتفری ،ذاتی سیاست ،لالچ نے ہمیں نہ جانے کہاں لاکھڑا کردیا،اسی لئے میں کہتاہوں کہ دیرآئد درست آئد، وفاقی وزیرپٹرولیم وانرجی سینیٹرڈاکٹرمصدق ملک نے وزیراعظم کے ملکی ترقی کے جس خواب بارے وضع کردہ حکمت عملی کوپیش کیاہے اس کے مطابق شہری اوردیہی علاقوں کے لئے معاشرتی ناہمواریوں اور مافیاازم کو ختم کرنے کے لئے کئی اہم اقدامات تجویزکئے گئے ہیںجس کے تحت دیہی علاقوں کو فوکس کیا جائے گا تاکہ کسانوں کو مضبوط کیا جائے اوران کی محرمیوں کوختم کرنے انہیں حکومت سہولیات براہ راست مہیا کی جائیں جس سے زرعی پیداوارمیں اضافہ ہوا اور پیداواری لاگت بھی کم ہو، اس میں کسانوں کو حکومت بیچ اورکھاد کی براہ راست اورسستے داموں فراہمی کو یقینی بنائے گی جبکہ پانی کی دستیابی کیلئے سولر ٹیوب فراہم کئے جائیں گے تاکہ مہنگی بجلی کے اثرات سے بچیں اور ترسیلی سسٹم پر بجلی کا بوجھ بھی بتدریج کم ہو سکے، کیونکہ بجلی کے ڈومسٹک، کمرشل دو دیگر مختلف کنکشنز کے فی یونٹ کی قیمت جس قدر بڑھ چکی ہے اس میں مہنگائی کو کسی طور پر قابو نہیں پایا جا سکے گا، اوراسی سوچ کے مدنظر کسانوں کوزیادہ پیداوارکے حامل بیجوں کی فراہمی کویقینی بنایا جا رہا ہے، تاکہ پیداواری لاگت بھی کم ہو اور مارکیٹ تک ان کی اجناس بروقت پہنچ سکیں جس کے لئے دیہی انڈسٹریل فارم اورکولڈ سٹوریج سمیت متعلقہ انفراسٹرکچر بنایا جائیگا تاکہ تیس سے پینتیس فیصد پھلوں اوردیگر اجناس کوبھی ضائع ہونے سے بچایا جاسکے، بنیادی طورزراعت میں موجود مافیا کو ہاتھ ڈالا گیا تاکہ چھوٹے کسان آگے آئیں جن کو مافیا آگے نہیں آنے دیتا جس سے وہ حکومتی فوائد سے بھی پوری طرح مستفید نہیں ہوپاتے تھے،اس پلاننگ کے تحت دیہی علاقوں میں چھوٹے زرعی انڈسٹریل یونٹس کوخصوصی طوپرقرضے دیئے جائیں گے تاکہ و ہ اپنے کاروبارکوبڑھاسکیں اور زرعی انقلاب کی طرف قدم بڑھ سکے۔
ڈاکٹرمصدق ملک ایک ٹینکوکریٹ ہیں اورملکی معیشت اورصنعت کو بہت اچھا جانتے ہیں کہ کہاں کہاں مافیا ملک کے ساتھ کیسے کیسے معاشی طورپرکمزورکررہاہے، انہوں نے پہلے بھی گیس و پٹرولیم سمیت فرٹیلائزر دیگرمختلف کاروباری مافیا کو ہاتھ ڈالا، آئی پی پیز کیا کیا کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ گیس اور بجلی میں کیسے گردشی قرضے کی آڑ میں ملک کوجکڑرکھاہے ،اس لئے وہ اس ضمن میں اصلاحات کابڑا پلان رکھتے ہیں جس کے لئے اب انہیں وزیراعظم شہباز شریف کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اس لئے ان کی پریس کانفرنس اصل میں مافیا کے ساتھ اعلان جنگ ہے، باتوں باتوں میں انہوں نے صوبوں میںبجلی چوری اورکنڈا سسٹم کو بھی قوم کے سامنے رکھا کہ کن کن صوبوں میں بجلی چوری کی کیا پوزیشن ہے، اور پنجاب کیسے اپنا پیٹ کاٹ کراس بجلی چوری کابل اداکرکے قربانی دے رہاہے، اس لئے اب سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کواس بارے ترجیحی اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ اب بات ہو گی تو صرف اور صرف پاکستان کی ہوگی ،کسی صوبے کی نہیں۔ اس لئے لوڈ شیڈنگ کادورانیہ وہیں زیادہ ہونا چاہئے جہاں بجلی چوری زیادہ ہو، خواہ وہاں جس پارٹی کی بھی حکومت ہو، ڈسکوزکی ایفی شنسی کو بڑھانا ایک مشکل ٹاسک ہے لیکن بحرحال یہ کرنا ہو گا اور ریفارمز لانا ہوںگی، ورنہ ہم آئی ایم ایف کے مستقل غلام بن جائیں گے، گیس کی مینجمنٹ اورایل پی جی پرکم انحصارسے بھی کم لاگت بجلی کے پروگرام کوحتمی طور پر عملی جامہ پہنانا چاہئے، اور سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر سستی بجلی کے لئے جس طرح سیاسی جماعتوں نے شراکت اقتدارکے فارمولے کو عملی جامہ پہنایا اسی طرح کالاباغ ڈیم پربھی قومی اتفاق رائے کیلئے کام ہونا چاہئے، کیونکہ اب تو بالخصوص سندھ کے اعتراضات دور کرنے کے لئے کئی جدید تکنیکی ذرائع بھی دنیا میں موجود ہیں۔ اس پرمسلم لیگ ن کو اپنی اصل پالیسی پرازسر کو غور کرنا ہوگا ورنہ قوم کی زندگی گیس بجلی کے بل اداکرتے کرتے مرجائے گی۔ اور وزیراعظم شہبازشریف کا خواب پورا نہیں ہو گا۔
سیاسی اعتبارسے دیکھاجائے تویہ درست بات ہے کہ معاشرے میں رواداری ختم ہوچکی ہے جس کا اسباب وہ چند سوسیٹھ ہیں جن کی پاکٹ ہمارے سیاستدان، جج، بیوروکریٹ اور حکومتی انتظامی مشینری کے وہ لوگ ہیں جوملکی نظام کے رکھوالے ہیں، اگر شہباز حکومت ان مافیا پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کرچکی ہے تویہ ملکی سیاست کابڑا اہم فیصلہ ہوگا اس لئے وہ چند سوسیٹھوں کی قربانی دیدیں کیونکہ اگران کی قربانی دیدی گئی تودانش سکول ہوں یاعام سرکاری وغیرسرکاری سکول کالج، یونیورسٹیز، صنعتی وزرعی ادارے بلکہ ہرشعبہ بہتری کی جانب بڑھے گا، نوجوان ازخود آئی ٹی کی طرف آئیں گے، فنی تعلیم کی طرف بڑھیںگے، ملک کوسنوارنے کیلئے حکومت کاساتھ دیںگے، اوورسیز پاکستانی حکومت کابازوبنیں گے، کاروبار خوشحال ہوںگے، اوران کاتعلق سیاسی افہام وتفہیم سے بھی ہے جس طرح وزیراعظم شہبازشریف نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اوروزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے اپوزیشن لیڈررانا آفتاب احمد خان کیساتھ سیاسی رواداری اوراخلاقیات کا مظاہرہ کیا اس کا دائرہ کار وسیع کیا جائے تاکہ معاشی مسائل کے ساتھ سیاسی مسائل بھی کم ہوں اورملک ترقی کی طرف بڑھ جائے، اورجب الیکشن کا وقت آئے تو اپنی اپنی سیاست کریں۔
تبصرے بند ہیں.