صدارتی الیکشن، جیل حملہ منصوبہ، این آر او

34

انتخابات ہو گئے وفاق اور صوبوں میں حکومتیں قائم ہو گئیں، ایوان صدر پھر سے آباد ہو گیا۔ حالات کی تلخی کم نہیں ہوئی۔ انتخابی نتائج نے تصادم اور دشمنی کی آگ بھڑکا دی ہے کب بجھے گی؟ کچھ پتا نہیں، حالات خراب کرنے کے منصوبہ ساز کھلے بندوں دندناتے پھر رہے ہیں۔ ٹینس ماحول نے مستقبل کا منظر نامہ واضح کر دیا ہے کیا مستقبل میں بھی پارلیمنٹ ہاؤس میں یہی کچھ ہو گا؟ اس سے جڑے کئی سوالات ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں۔ کہنہ مشق تجزیہ کار موجودہ انتخابات کو ہائبرڈ پلس قرار دے کر اس کے تانے بانے مشرف دور سے جوڑنے میں مصروف ہیں۔ ان کی دانست میں پرانے تجربوں میں بعض ترامیم کے ساتھ پھر سے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ کہنہ مشقوں کے تجزیے بجا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس بار ملکی سلامتی، سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے انتہائی سنجیدہ ہے اور وہ ماضی کے تجربات کے بجائے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے سیاستدانوں کو ڈلیور کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ دیگر تجزیہ کاروں کو خان کی رہائی کی فکر کھائے جاتی ہے۔ ان کا موقف خان کے وکلا سے مختلف نہیں کہ ان کے خلاف مقدمات کمزور ہیں کسی نہ کسی فورم پر داد رسی ہو جائے گی جبکہ ادھر کے ماہرین سیاست کے خیال میں ہنوز دلی دور است، تجزیے اپنی جگہ، ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے۔ نعرے بازی، گالم گلوچ، جوتا نمائی اور دیگر غیر اخلاقی حرکات کے باوجود ارکان کے حلف سے لے کر صدر، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ سمیت تمام آئینی عہدوں پر انتخابات مکمل ہو گئے۔ آصف زرداری 411 ووٹ لے کر دوسری بار صدر منتخب ہو گئے۔ حال ہی میں صف دشمناں میں شامل ہونے والے مخالف صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کو 181 ووٹ پڑے۔ ایم کیو ایم نے آصف زرداری کی حمایت کی مولانا فضل الرحمان بدستور غصہ میں ہیں۔ اس لیے انہوں نے صدارتی انتخاب کا بھی بائیکاٹ کیا اس لیے زرداری جے یو آئی ف کے 30 ووٹوں سے محروم رہے ادھر بلوچستان اسمبلی سے اچکزئی کو کوئی ووٹ نہ مل سکا۔ اس سے قبل اسی گرما گرم ماحول میں میاں شہباز شریف 201 ووٹ لے کر دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہو گئے جبکہ ان کے مخالف امیدوار پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب کو 92 ووٹ ملے، اس دوران گالم گلوچ کے جو مقابلے ہوئے وہ کسی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتے۔ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں بھی ہاتھ سے گئیں، یہ نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ واویلا فضول، 180 سیٹیں بھی گم، ہنگامہ آرائی کے دوران دونوں جانب سے پیغام دیا گیا۔ ”اینٹ کا جواب بھٹہ میں پکی اینٹ سے دیا جائے گا۔“ حلف اٹھاتے ہی تصادم کے راستے پر چل پڑے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل) کے ڈپٹی سپیکر کے شکست خوردہ امیدوار جنید اکبر نے دھمکی دی کہ جنہوں نے خان کے نام پر کراس لگایا ہم وہ ہاتھ توڑ دیں گے۔ جب تک فارم 45 کے تحت ہمیں ہرانے والوں کو ایوان سے نہیں نکالیں گے ایوان نہیں چلنے دیں گے۔ خواجہ آصف نے سابق قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا تھا ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے“ ہوتی ہو گی ہماری سیاست کے سینے میں تو دل اور آنکھوں میں شرم و حیا نظر نہیں آئی، محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی کو عمر ایوب کے دادا جنرل ایوب خان نے جیل میں ڈالے رکھا۔ اب اسی دادا کا پوتا گالم گلوچ والی جمہوریت کا علمبردار بن کر محمود اچکزئی کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ سنئے بلکہ سر دھنئے عمر ایوب قومی اسمبلی میں نواز شریف زندہ بادکے نعرے لگایا کرتے تھے۔ اب مخالف تقریروں سے گلا بیٹھ گیا۔ محمود اچکزئی بھی بھول گئے کہ وہ کچھ عرصہ قبل تک نواز شریف کے ساتھ تھے۔ ان کی ویڈیو وائرل ہوئی ”جو پشتون نواز شریف کا ساتھ نہیں دے گا وہ بے غیرت ہو گا“ ”آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی“۔ محمود اچکزئی اچانک صف اغیار میں شامل نہیں ہوئے بقول لطیف کھوسہ دو ہفتے قبل بانی پی ٹی آئی نے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔ صدارتی انتخاب پر یاد آیا۔ ساڑھے 5 سال صدارت کے عہدے پر براجمان رہنے والے عارف علوی ایوان صدر کی چکا چوند روشنیوں سے نکل کر گمنامی کی تاریکیوں میں گم ہو گئے، تاریخ میں متنازع ترین صدر کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔ گارڈ آف آنر میں بجھے چہرے سے شرکت کی جیسے کہہ رہے ہوں ”انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کا لگانا کیا“

حکومتیں تشکیل پا گئیں۔ وفاقی کابینہ کو بھی آخری شکل دی جا رہی ہے کچھ اپنے کچھ ان کے وزیر شامل کیے جائیں گے۔ اسحاق ڈار وزیر خزانہ نہیں ہوں گے اورنگزیب رمدے کا نام لیا جا رہا ہے اچھے بینکار اور ورلڈ بینک میں رہ چکے ہیں۔ اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ کا منصب سونپا جائے گا لیکن ان کے کندھوں پر دونوں جانب کراما کاتبین سوار رہیں گے۔ دائیں جانب مشیر خارجہ جلیل عباس جیلانی جبکہ بائیں جانب معاون خصوصی طارق فاطمی موجود ہوں گے۔ پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ فیم محسن نقوی کو وزیر داخلہ کا قلمدان سونپا جائے گا۔ وجہ شہرت پنجاب میں امن و امان کا قیام، بڑے بڑے قوم یوتھ کے رہنماؤں کو نتھ ڈال دی، سامنے نہیں آئے مگر چلمن سے لگے حرکات و سکنات سے با خبر رہے بیورو کریسی سے بھرپور کام لیا۔ اب بھی یہی کام لیا جائے گا اس سارے عمل کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود پی ٹی آئی نے سسٹم کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اسے ناکام بنانے کی روایت پر کار بند ہو گئی۔ خان نے آئی ایم ایف کو قرضہ نہ دینے کا خط لکھ دیا۔ بھلا ہو آئی ایم ایف کا اس نے وہ خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا کہ سیاست ہمارا مینڈیٹ نہیں۔ معاشی معاملات پر نئی حکومت سے مذاکرات کریں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آئی ایم ایف میں کوئی کپتان ہیں ورنہ اب تک پاکستان کو ڈیفالٹ قرار دے دیتا اور وہی حشر کرتا جو لیبیا، مصر اور سری لنکا کا ہو چکا ہے۔

جہاں تک انتخابات کی شفافیت کا تعلق ہے اس پر اب تک سوال اٹھ رہے ہیں 2018ء میں بھی اسی طرح کے سوال اٹھائے گئے تھے۔ افسوس کہ حالیہ سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے سوا کہیں دھاندلی نہیں ہوئی۔ دھاندلی یا بقول پی ٹی آئی دھاندلا ہوتا تو ووٹر سڑکوں پر نکل آتے۔ سروے کے مطابق 73 فیصد عوام نے خیبر پختونخوا میں دھاندلی کا اقرار کیا جبکہ باقی صوبوں میں شہروں کے 52 اور دیہات کے 61 فیصد عوام نے انتخابات کو شفاف قرار دیا۔ ”بہت شور سنتے تھے ہاتھی کی دم کا جو دیکھا تو اک ہاتھ رسی کا ٹکڑا“ انتخابات کے خلاف مسلم لیگ ن نے 34 درخواستیں دیں جبکہ پی ٹی آئی کی صرف 4 درخواستیں منظر عام پر آئیں۔

جمہوریت ٹریک پر آ گئی، خان کیا کریں گے اب تک کیا کرتے رہے ہیں۔ لال جھنڈی دکھا کر جمہوریت کی ٹرین روکنے کی کوششیں، پی ٹی آئی کا مطمع نظر خان کی رہائی، دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کی گود کی گرمی کے مزے، کپتان اسٹیبلشمنٹ کے مخالف نہیں گود سے گرانے پر ناراض ہیں جنہوں نے تجرباتی طور پر گود لیا تھا وہ تین سال بعد ہی پچھتائے اور ہاتھ پاؤں کھینچ لیے جہاں تک ان کی رہائی کی کوششوں کا تعلق ہے پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ سیاستدان انتہا پسند، وکلا اعتدال پسند، طرفہ تماشا، موکل جیل میں وکلا پارلیمنٹ میں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے قیدی نمبر 495 (پی ٹی آئی اب تک قیدی نمبر 804 کے نغمے الاپ رہی ہے، جبکہ اٹک جیل میں قیدی نمبر 804 چوری، چرس اور منشیات کے جرم میں سزا کاٹ رہا ہے۔ اڈیالہ جیل میں خان کا نمبر 495 اور ان کے دست راست شاہ محمود قریشی کا 496 ہے) کی رہائی کی راہ ہموار کی جائے وکلا کے ساتھ اس گروپ میں اسد قیصر بھی شامل ہیں۔ اس گروپ نے قومی اسمبلی میں خان کی رہائی کی قرارداد پیش کر دی جسے یاروں نے این آر او قرار دیا۔ انتہا پسند گروپ ابھی تک چھین کے لیں گے آزادی کے نعرے پر کار بند ہے۔ حالانکہ خان آزادی نہیں دوبارہ ان ہی کی غلامی کے خواہاں ہیں تاکہ اقتدار حاصل کر سکیں۔ شاندانہ گلزار اچھی بھلی پڑھی لکھی لیکن وائرس زدہ، دھمکیوں پر اتر آئی کہا جتنا اسلحہ پورے ملک میں ہے اس سے زیادہ خیبر پختونخوا میں موجود ہے۔ انتہا پسند دھڑے کے لیڈر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور مراد سعید جیسے رہنما ہیں جو اپنی دانست میں لانگ مارچ، دھرنوں اور دھمکیوں سے خان کو رہا کرا لیں گے۔ اڈیالہ جیل پر حملہ کا منصوبہ اسی انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے۔ سی پی او راولپنڈی خالد ہمدانی کے مطابق تین دہشتگرد پکڑے گئے تعلق افغانستان سے ہے ان کے قبضہ سے اڈیالہ جیل کے نقشے، دستی بم اور دیگر ہتھیار برآمد ہوئے دہشتگرد اڈیالہ جیل اور ارد گرد کے علاقہ کو تباہ کرنا چاہتے تھے ایک خبر کی کوکھ سے کئی خبریں نکلیں۔ چڑیوں کوؤں کی خبروں کے مطابق دہشتگرد جیل میں داخل ہو کر خان کو چھڑا کر سرحد پار کسی علاقہ میں لے جانا چاہتے تھے تاکہ جلا وطن حکومت قائم کی جا سکے سیانوں نے تاہم اس خبر کو فضول قرار دیا۔ ایک تجزیہ کار دور کی کوڑی لائے کہ خان کے دن اڈیالہ جیل میں پورے ہو گئے ہیں آمد و رفت بہت ہو گئی۔ اڈیالہ سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ”بنی گالہ؟ نہیں، مچھ جیل؟“ کچھ نہیں کہا جا سکتا فی الحال اسی جیل میں عیش کریں گے۔ علی امین گنڈا پور نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہی دھمکیوں کا طوفان اٹھا دیا۔ ایک ہفتہ میں ایف آئی آرز ختم کرو ورنہ سزائیں بھگتنے کو تیار رہو اسی دوران لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ شیر افضل مروت نے دھرنا دینے کا اعلان کیا طاقتوروں نے لکیر کھینچ دی، لائن کراس نہ کی جائے بصورت دیگر پھلانگنے والوں کا نقصان، علی امین گنڈا پور کے خلاف شراب اور ہتھیاروں کی نمائش اور عوام کو اکسانے کے مقدمات کھول دیے گئے۔ چیخم دھاڑ مچائی تو گرفتاری خارج از امکان نہیں، فیصلے ہو گئے پہلے سمجھایا جائے گا۔ ”جو نہ سمجھے وہ اناڑی“ صرف چار مہینے، بجٹ کے بعد صوبہ میں گورنر راج۔ ”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ“ پیغام پہنچ گیا۔ بات سمجھ میں آ گئی۔ لہجہ بدلا لانگ مارچ سے بھاگ گئے۔ وفاق سے مکمل تعاون کی یقین دہانی سامنے آنے لگیں۔ قرار دادوں سے کچھ نہیں ہو گا، روڈ میپ طے کر لیا گیا۔ خان پر مقدمات جعلی نہیں سو فیصد اصلی ہیں 4 ستمبر کو ٹرمپ آئے نہ آئے ستم گر ستمبر خان کے لیے کوئی خوشخبری نہیں لائے گا۔

تبصرے بند ہیں.