کوئی تمہارے ساتھ نہیں

74

شیر کو جنگل کا بادشاہ کہنے، بنانے اور سمجھنے کی لاتعداد وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ان میں ایک یہ بھی ہے کہ شیر کرتا کراتا کچھ نہیں بس حکم چلاتا ہے بادشاہوں کی طرح۔ میری دانست میں شیرنی ورکنگ وائف اور شیر ہائوس ہزبینڈ ہوتا ہے، بچے پیدا کرنے سے لے کر انہیں پالنے تک شیرنی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، اس کی اضافی ذمہ داریوں میں گھر چلانے کے لئے شکار کرکے لانا بھی شامل ہوتا ہے۔ شیر بذات خود صرف اس وقت ہی شکار کے لئے نکلتا ہے جب اسے شکار کی کوئی اور سہولت میسر نہ ہو۔ شیرنی شکار کرکے لاتی ہے اور اہل خاندان کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ اگر اس کے بچے ہوں تو بوٹی بوٹی ان کے حصے میں بھی آ جاتی ہے، شکار کا بڑا حصہ شیر کے حصے میں آتا ہے، وہ سیر ہو کر کھاتا ہے اور سونے کے لئے چلا جاتا ہے۔ میدان سیاست میں بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے۔ شیر کے حصے میں بہت کچھ آیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے عہدے کے علاوہ درجنوں وزیر اس کے کوٹے سے بنیں گے، اتحادیوں کو کچھ حصہ ملے گا۔ یوں آہستہ آہستہ وزیروں اور مشیروں کی کابینہ بیس پچیس افراد سے شروع ہوگی، پچاس ساٹھ تک جائے گی۔ بھلا ہو جناب آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کا وہ عہدہ صدارت اور کچھ آئینی عہدوں پر مطمئن ہوگئے ہیں ورنہ کابینہ کی تعداد سابق پی ڈی ایم حکومت کی طرح ستر سے اسی افراد تک جاتی۔ جس کے بعد وزراء اور ممبران قومی اسمبلی کے لئے کچھ مزید سہولتوں کے اعلان کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اکانومی پروگرام ترجیح اول ہے۔
نامزدگی صدر پاکستان اور نامزدگی وزیراعظم پاکستان کے حوالے سے کی گئی پریس کانفرنس دیکھ کر یوں لگا جیسے شیر حکومت میں بڑا حصہ لے کر بھی خوش نہیں، عین ممکن ہے پریس کانفرنس میں آنے سے قبل بڑا شیر پوری آواز کے ساتھ دھاڑا ہو اور اس کی دھاڑ سے چھوٹے شیر کا دل دہل گیا ہو، بہرحال کچھ نہ کچھ تھا ضرور ورنہ کسی بھی تقریب میں وہ یوں منہ بسور کر نہیں بیٹھا رہتا۔ وزیراعظم کی نامزدگی کے اعلان پر بھی شہبازشریف کے چہرے پر سوگواری طاری تھی۔ پاکستان کے وزیراعظم تو پہلے بھی رہ چکے ہیں، اب تو اس سے بڑھ کر کچھ ہونا چاہئے۔ بحیثیت وزیراعظم پاکستان ان کی نامزدگی ان کے گھر کا معاملہ نہیں ہے بلکہ پورے ملک کا معاملہ ہے۔ انہوں نے تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم پاکستان اور چوتھی مرتبہ کے لئے فیورٹ برائے وزیراعظم پاکستان کو اس دوڑ سے آئوٹ کیا ہے۔ کچھ قریبی حلقوں کا کہنا ہے انہوں نے جناب نوازشریف کو رن آئوٹ کرا دیا ہے۔ نوازشریف ٹھیک کھیل رہے تھے، آخری گیند پر آخری شاٹ یعنی وکٹری شاٹ کے بعد وہ سکور کے لئے دوڑے، کریز سے کافی آگے تک آ گئے لیکن شہبازشریف اپنی جگہ پر ہی
کھڑے رہے، گیند وکٹوں میں مار دی گئی، ایمپائر نے آئوٹ کا اشارہ دے دیا، ایمپائز ٹس سے مس نہ ہوتا تو بات الگ تھی لیکن ایمپائر کی انگلی کھڑی ہو جائے تو پھر کوئی کریز پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔
آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی میں آنے والے ممبران اپنی اپنی جماعتوں کے ساتھ موجود ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور ان کے لئے ووٹ بڑے وزیراعظم دینے والے اتحادی ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ سو کے ہندسے کو چھو لیں گے، خواتین ممبران کے آنے سے تعداد پونے دو سو کے قریب پہنچ جائے گی یا اس سے کچھ زیادہ ہو جائے گی، اپوزیشن میں بیٹھنے والے ممبران کی تعداد سوا سو کے قریب پہنچ سکتی ہے لیکن ان کی تعداد کا انحصار اول الیکشن کمیشن اور بعد ازاں عدالت کے فیصلے سے مشروط ہوگا، انہیں من پسند پارٹی میں جانے کا حق ملتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح سنی اتحاد میں شمولیت کے بعد پارٹی کو خواتین کی مخصوص نشستیں ملتی ہیں یا نہیں۔ سنی تحریک کے سربراہ جناب حامد رضا نے متوقع حکمران اتحاد کے اعتماد کو پارہ پارہ کرنے اور اپنے اتحادیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے حوصلہ افزاء بیان داغا ہے کہ آئندہ چند روز میں مزید ارکان قومی اسمبلی کے حلفیہ بیان جمع کرائیں گے اور اپنا وزیراعظم لائیں گے۔ خوش گمانی پر کہیں بھی پابندی نہیں لیکن جاری برس تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی راہنما سلمان اکرم راجا نے اعلان کیا ہے کہ اگر مخصوص نشستیں نہ دی گئیں تو پارلیمانی کو ادھورا چھوڑ دیں گے، فرض کیجئے وہ ایسا کر گزرے اور پارلیمان ادھورا رہ گیا تو ہر آئینی انتخاب کو بریک لگ جائے گی۔ ہر قدم وہیں رک جائے گا جہاں سے اٹھا ہوگا، بھاری قدم والوں نے اس کا کوئی انتظام تو کیا ہوگا لیکن بعض اقدامات فول پروف سمجھ کر کئے تو جاتے ہیں لیکن انجام کار معلوم ہوتا ہے کہ ’’فول بن گئے‘‘ ہیں۔ فول پروف کچھ نہ تھا، مرکز میں بڑے دنگل کا فیصلہ بطریق احسن ہو گیا تو صوبوں میں معاملات کو سمیٹنا مشکل نہ ہوگا۔ سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر میں صورتحال یکطرفہ البتہ مرکز کا اثر کہیں نظر آیا تو وہ صوبہ پنجاب ہوگا۔
شریف خاندان کی دختر مریم نواز کا فیصلہ تو ہو گیا، وہ وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گی، فرزند سندھ کیا کریں گے، پیپلزپارٹی مرکز میں وزارتیں نہیں لے رہی تو بلاول بھٹو کیا کریں گے۔ کیا وہ وزیراعظم پاکستان بننے کا انتظار کریں گے یا وزیراعلیٰ سندھ بن کر کچھ مزید تجربہ حاصل کریں گے، فارغ بیٹھنے کی بجائے یہ عہدہ بہتر ہوگا لیکن فیصلہ بہرحال انہوں نے بذات خود اور جناب صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کرنا ہے۔ صوبہ خیبر میں وزیراعلیٰ اکثریتی پارٹی پی ٹی آئی لورز کا ہوگا جبکہ بلوچستان میں مکسڈ مینڈیٹ کے سبب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اکٹھے ہوں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان پیپلزپارٹی کی مرضی سے بنایا جائے گا۔ بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے پاس دس نشستیں ہیں۔ انہوں نے مرکز اور خیبر میں تو حکومت سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن عین ممکن ہے وہ جناب آصف زرداری کے کہنے پر اپنا احتجاج ترک کرکے بلوچستان میں کچھ وزارتیں اور کچھ عہدے لینے پر رضامند ہو جائیں۔ یاد رہے مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ سیاسی اونٹ ایک ماہ سے بلبلا رہا ہے، اسے کسی پل چین نہیں آ رہا، باربانوں کی کوشش ہے، اسے کسی طور بٹھا دیں کیونکہ سر پر 24 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہیں جبکہ ہم صرف 2 ارب ڈالر ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ فی الحال عہدوں کی بندربانٹ ہو رہی ہے، کسی کو اندازہ نہیں ہم حالت نزع میں ہیں، ملین ڈالر کا سوال ایک مرتبہ پھر دامن گیر ہے جو اٹھارہ ماہ میں تباہی کرگئے وہ اب اسے کیسے سدھاریں گے۔ اسحاق ڈار کے تمام جادو ٹھس ہو چکے۔ یہی وجہ ہے وہ وزیر خزانہ بننا نہیں چاہتے۔ آج کل مارکیٹ میں نیا نعرہ زبان زدعام ہے۔ ’’نوازشریف قدم بڑھائو کوئی تمہارے ساتھ نہیں‘‘ جس طرح اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی ہماری سیاست کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ایسے میں ملک کیسے سیدھا ہو سکتا ہے، کوئی امید نظر نہیں آتی۔

تبصرے بند ہیں.