بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے ناکام عاشق ہیرو کی طرح جذباتی انتہائی آزردہ تھا۔ میرے لیے جذباتی کی یہ حالت پریشانی کا باعث تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ حیران کن بھی تھی۔ باوجود اس کے کہ جذباتی زندگی کے ہر معاملے میں انتہائی درجے کا جذباتی ہے میں نے اس سے پیشتر اسے کبھی اس بُری طرح اداس نہیں دیکھا تھا۔ میں یہاں شاطر کے کہنے پر پہنچا تھا جس نے مجھے فون پر جذباتی کی موجودہ حالت کے بارے میں بتایا تھا۔ میںنے اس کا سبب پوچھا تو شاطر نے کہا ”تم خود آ کر پوچھ لینا“۔ اور اب پچھلے ایک گھنٹے سے میں جذباتی کی دل جوئی کرنے کے ساتھ مسلسل اس کی اداسی اور دکھ کا سبب جاننے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ کچھ بتانے کے بجائے اپنا سر جھکائے عجیب دُکھی اور اداس بلبل جیسی شکلیں بنا رہا تھا۔ جسے دیکھ کر اس پریشان کن صورتحال کے باوجود شاطر کے ساتھ میرے لیے بھی اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے دلاسہ دینے کے انداز میں جذباتی کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا ”یار کچھ بتاﺅ تو سہی کیوں اپنے ساتھ ہمیں بھی ہلکان کر رہے ہو“۔ اس پر جذباتی نے ملکہ جذبات کے انداز میں مزید ایسی دُکھی شکل بنا لی کہ مجھے لگا جیسے وہ ابھی بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا“۔ پچھلے کچھ عرصے سے گاﺅں میں اس کی والدہ کی صحت خراب تھی میرے ذہن میں آیا خدانخواستہ کہیں اُن کے حوالے کوئی بُری خبر نہ ہو۔ میں نے محتاط انداز میں پوچھا ”گاﺅں میں تو سب خیریت ہے ناں“۔ اس نے منہ سے کچھ کہنے کے بجائے اوور ایکٹنگ جیسے اداس چہرے سے میری طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس پر میں نے زچ ہو کر کہا ”پھر کیوں اتنا پریشان کر رہے ہو تم ہمیں؟“۔ اس نے دوبارہ میری طرف دیکھا اور سوالیہ انداز میں کہنے لگا ”تم نے نیوز چینل پر پی ٹی آئی کے وفد کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی خبر سنی ہے؟“۔ میں نے کہا ”ہاں تو گذشتہ رات پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمن سے ملنے اُن کی رہائش گاہ گیا تھا مگر اس خبر سے تمہارے اس سوگ کا کیا تعلق ہے؟“۔ کہنے لگا ”تمہارے خیال میں یہ خوشی کی خبر ہے؟“۔ میں نے کہا ”اگر خوشی کی نہیں ہے تو میرے خیال میں دکھ کی خبر بھی نہیں ہے“۔ جذباتی نے ایک نظر شرارت سے مسکراتے شاطر کی طرف دیکھا اور پھر مجھے کہنے لگا ”رانا تمہیں اچھی طرح پتا ہے مجھے اس دنیا میں کسی بھی شخص سے زیادہ اپنے قائد عمران خان سے پیار ہے بلکہ عشق ہے“۔ میں نے کہا ”صرف تم ہی نہیں اس ملک میں تمہارے جیسے اور بھی کئی لوگ ہیں جو خان صاحب کے پرستار ہیں۔ بلکہ میں تو خود بھی کرکٹ اور شوکت خانم جیسا ہسپتال بنانے کی وجہ سے خان صاحب کا شدید مداح رہا ہوں مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب خان صاحب نے ابھی سیاست میں آ کر اپنا ”یوٹرن“ متعارف نہیں کرایا تھا“۔ میری بات سن کر جذباتی کہنے لگا ”مجھے اس بات کی تکلیف نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے وفد نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے مجھے اس بات کا دُکھ ہے کہ وفد نے یہ ملاقات خان کے حکم پر کی ہے“۔ میں نے کہا ”تو پھر کیا ہوا سیاستدان ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں“۔ کہنے لگا ”سیاستدان ملتے ہونگے مگر جس خان کو میں جانتا اور مانتا ہوں اُس نے تو کہا تھا کہ وہ مر جائے گا مگر چوروں اور لٹیروں سے کبھی ہاتھ نہیں ملائے گا۔ خان نے یہ بھی کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن، مولانا نہیں ہے بلکہ یہ ملک کا سب سے بڑا منافق، چور ڈاکو اور لٹیرا ہے اور یہ دین کی آڑ لے کر اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑتا ہے، ڈیزل کی سمگلنگ کرتا اور حکومتوں کو بلیک میل کرتا ہے“۔ میں نے کہا ”ہاں خان صاحب نے بالکل ایسا کہا تھا اور انہوں نے ایک بار نہیں اپنے جلسوں میں بار بار اس کی تکرار کی تھی اور یہی نہیں اور بھی بہت کچھ کہا تھا، خان صاحب نے مولانا فضل الرحمن کے بارے میں جبکہ جواب میں مولانا صاحب بھی خان صاحب کو اپنے جلسوں اور محفلوں میں یہودی ایجنٹ اور ملک دشمن کہتے رہے ہیں“۔ میری بات سن کر جذباتی کہنے لگا ”بس اسی بات کی تو مجھے تکلیف ہو رہی ہے کہ خان نے اس چور ڈاکو اور لٹیرے سے ہاتھ کیوں ملایا ہے۔ اتنا دُکھ مجھے اپنے والد کی وفات پر نہیں ہوا تھا جتنا دکھ مجھے خان کے اس یو ٹرن سے ہوا ہے“۔ میں نے کہا ”لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے خان صاحب اس سے پہلے بھی بارہا اپنی کہی ہوئی باتوں پر یوٹرن لے چکے ہیں بلکہ اُن کے ناقدین تو انہیں اس بات کا طعنہ بھی دیتے ہیں کہ خان صاحب اپنی تقریروں میں اپنے مخالفین اور اداروں پر بغیر سوچے سمجھے جھوٹے الزامات لگا کر پہلے عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور پھر ضرورت پڑنے پر اپنی بات سے یوٹرن لے لیتے ہیں۔ ابھی تو مولانا فضل الرحمن سے رجوع کا معاملہ ہے جس پر تم اتنے دُکھی ہو رہے ہو آگے آگے دیکھنا خان صاحب کیسے اپنے سیاسی مفادات کے لیے انہی تمام سیاستدانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونگے جنہیں وہ جلسوں میں چور، ڈاکو اور لٹیرا کہتے رہے ہیں“۔ میری اب تک کی گفتگو سے یہ ہوا کہ جذباتی کے دُکھ کی کیفیت میں پہلے سے کچھ کمی ہوئی مگر اب اس کے چہرے پر جیسے کچھ پریشانی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے جسے بھانپ کر میں نے کہا ”لیکن تمہیں کس بات کی فکر ہو رہی ہے؟“۔ اس پر جذباتی نے میری اور شاطر کی طرف شرمندہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ”رانا تم مانو گے نہیں لیکن تمہاری ان باتوں نے واقعی میری آنکھیں کھول دی ہیں البتہ اب مجھے اپنے اس جذباتی پن اور بیوقوفی پر سخت شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میں کس طرح ایک جھوٹے سیاسی بیانیے کو سچ مان کر اپنے قریبی دوستوں، عزیزوں اور رشتے داروں کو ناراض کرتا رہا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ خان کے اس تازہ ”یوٹرن“ کے بعد اب میں کس منہ سے ان سب کا سامنا کرونگا“۔ میں نے کہا ”اگر سچ میں تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو سب سے پہلے اب تک جن لوگوں کو تم نے ناراض کیا ہے انہیں راضی کرو اور اس کے بعد سچے دل سے توبہ کر کے یہ عہد کرو کہ آئندہ کسی قسم کی سنی سنائی باتوں اور جھوٹے سیاسی بیانیوں پر کان نہیں دھرو گے۔ دوسری صورت میں جس طرح تم پہلے بغیر سوچے سمجھے اپنے لیڈر کے ہر جائز و ناجائز عمل اور سچے جھوٹے بیانیوں کا دفاع کرتے رہے ہو اسی طرح ہٹ دھرمی اور بے شرمی سے اس نئے یوٹرن کا بھی دفاع کرتے رہو“۔
تبصرے بند ہیں.