علم حاصل کرنے اور ڈگری حاصل کرنے میں نیت کا فرق ہے۔ ڈگری رسمی تعلیم اور اس کے تقاضے پورے کرنے والوں کو ملتی ہے۔ علم کے ذرائع اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ عموماً ڈگری کو روزگار سے منسلک کرنے والوں پر ہلکی پھلکی تنقید کی جاتی ہے مگر حقیقت پسندی سے کام لیں تو پاکستان جیسے ممالک کہ جہاں عوام کی اکثریت روزی روٹی پوری کرنے کے دائرے میں زندگیاں گزار رہے ہیں، تعلیم کا اصل مقصد نوکری کا حصول ہی ہے۔ نوے کی دہائی میں ایف ایس سی کرنے کا رواج ہوا تو دھڑا دھڑ لوگ اپنے بچوں کو سائنس پڑھانے لگے۔ پھر کمپیوٹر آیا تو آئی سی ایس کرنے پر زور دیا جانے لگا۔ اس کے بعد بزنس کی تعلیم کا رجحان دیکھنے میں آیا تو دھڑا دھڑ آئی کام اور بی کام کے ڈگری ہولڈر پیدا ہونے لگے۔ ڈاکٹر، کمپیوٹر ایکسپرٹ اور بعد ازاں بینکر بننے کی بھیڑ چال دیکھنے میں آئی۔ ایم اے صحافت، میڈیا کی ترقی کے بعد ماس کمیونیکیشن ہو گیا۔ مشرف کے زمانے میں جب نجی ایف ایم اور ٹی وی چینلز کھولنے کی اجازت ملی تو پنجاب یونیورسٹی میں ایم بی اے کے بعد سب سے ہائی میرٹ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کا تھا۔ رپورٹر اور اینکر پرسن بننے کا جنون سر چڑھ کر بولنے لگا۔ نوکری کے ذریعے پیسہ اور شہرت کمانے کا آپشن کسے اچھا نہیں لگتا۔ ایک مڈل کلاس نوجوان کے لیے کم وقت میں یہ دونوں حاصل کرنے کے دو رہی راستے تھے۔ پہلا یہ کہ گریجوایشن کے بعد سی ایس ایس یا پی ایم ایس کریں۔ اسسٹنٹ کمشنر، اے ایس پی بھرتی ہوں۔ اس سے جہاں اچھی تنخواہ ملنے کے امکانات ہوتے ہیں وہیں معاشرے کے اندر باعزت مقام بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ دوسرا آپشن صحافت تھا اور ہے۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اگر رپورٹر یا اینکر محنت کرتا ہے تو وہ بہت جلد ٹی وی سکرینز پر نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا سوشل سٹیٹس دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ اخبارات کے بعد ٹی وی اور اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ پیسہ اور شہرت کمانے کا طریقہ کافی حد تک اپ گریڈ ہو چکا ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے اندر اب سپیشلائزیشن آ چکی ہیں۔
جیسے ڈاکٹر جسم کے ہر حصے کا الگ ہوتا ہے۔ اسی طرح اب کمیونیکیشن کو بھی ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن، پی آر اینڈ ایڈورٹائزنگ، فلم اینڈ ٹی وی، ڈیجیٹل میڈیا، پرنٹ میڈیا اینڈ ریسرچ جیسے ٹائٹلز مل چکے ہیں۔ یہ سب پیغام رسانی اور پراپیگنڈہ کے مختلف طریقے ہیں۔ ان کا مقصد معاشرے کے اندر مختلف انداز سے شعور بیدار کر کے تبدیلی لانا ہے۔ ان ٹولز کو کاروباری لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں اور ریفارمرز بھی۔ لوگوں کے ذہن بدل کر اگر چیز بیچی جا سکتی ہے تو آئیڈیاز بھی بیچے جا سکتے ہیں۔ ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مائنڈ سیٹ بدلا جائے۔ ذہنی ترقی اور سوچ میں بہتری کے لیے کام کیے بنا انفراسٹرکچر پر کام کرنا بے سود ہے۔ انسان کو دوسرے انسانوں کی موجودگی کا احساس دلانا، معاشرے میں مل جل کر رہنے کی افادیت اور پھر مختلف وباؤں اور مسائل سے مل کر لڑنے کے لیے قائل کرنا ضروری ہے۔ فرسودہ روایات سے نقصان انسانی جانوں کو ہی ہوتا ہے۔ لوگ بیمار ی میں جعلی عاملوں اور پیروں کے ہاتھوں زندگیاں گنوا دیتے ہیں۔ ایسے زہریلے نظریات پنپ رہے ہیں کہ جن کو اگر بدلا نہ جائے تو اس سے مجموعی طور پر نقصانات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ لوگوں کو بدلتے ہوئے حالات اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والے جو مبلغ ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی سائنس کو پڑھیں اور تبلیغ کو بھی سائنسی انداز میں کرنا سیکھیں۔ اصلاح بھی اب محض آرٹ نہیں رہی بلکہ سائنس بن چکی ہے۔ لوگوں کے حالات زندگی اور کوالیفیکیشن کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیغام تیار کیے جاتے ہیں۔ ان پیغامات کو ایک کمپین کی صورت بڑی مہارت سے لانچ کیا جاتا ہے۔ پھر رویوں پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اس مسلسل عمل سے کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے لیے کام کیا جاتا ہے۔ اب اگر ایک نوجوان کے پاس ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی ڈگری ہے تو وہ کہاں کہاں نوکری حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ انہیں لوگوں کو قائل کرنے کے لیے ان ماہرین کی ضرورت ہے۔ اپنا پیغام بنانے اور پہنچانے کے لیے وہ ڈویلپمنٹ کے ماہرین کی بھاری معاوضے پر خدمات حاصل کر رہی ہیں۔ عالمی ڈویلپمنٹ ایجنسیز جن میں اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈ شامل ہیں، ان کے پراجیکٹس میں ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ دی جا رہی ہے۔ سرکاری ادارے جن میں محکمہ بہبود آبادی، صحت کی وزارت اور دیہی تعلیم کے ادارے ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے ماہرین کو بھرتی کر رہے ہیں۔ پبلک ریلیشنز کے محکموں میں بھی ایسے ماہرین ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں، جن کو رویوں میں تبدیلی کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مہارت حاصل ہو۔ میڈیا کے اندر ڈویلپمنٹ سیکٹر پر رپورٹنگ کرنے کے لیے اس کمیونیکیشن کے ماہر ہی کام آتے ہیں۔ محکمہ ماحولیات کو ان کی اشد ضرورت ہے۔ آلودگی کم کرنے کے لیے کئی ایک محاذ پر کام کرنا پڑتا ہے۔ کہاں مسئلہ ہے اور اس کو کیسے حل کرنا ہے یہ بات مسلسل عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے جو کہ اسی ڈگری کے حامل لوگوںکا کام ہے۔ کووڈ کے بعد خاص طور پر صحت کے میدان میں ہیلتھ کمیونیکیشن کی اہمیت کا ادراک ہوا ہے۔ لوگ ویکسینیشن کے اندر بھی سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔ پولیو کے قطرے بچوں کو نہیں پلاتے۔ ان کی ذہن سازی کے لیے ماہرین کو ہائر کیا جاتا ہے۔ ڈویلپمنٹ اور سوشل چینج پر تحقیق کرنے والے اداروں کو ان کی ضرورت ہے۔
سرکاری نوکری میں ہزاروں اور عالمی اداروں میں نوکری حاصل کر کے ڈالر کمانے ہیں تو پنجاب یونیورسٹی سے ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کرنا ایک بہتر آپشن ہے۔ اس کی فیس مناسب ہے اور جرنلزم کی دیگر برانچز کے مقابلے میں اس میں ابھی بھیڑ کم ہے۔ ماہرین کم ہیں اور نوکریوں کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کی تعلیم کے لیے علیحدہ ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا ہے جس کی چیئر پرسن ڈاکٹر عائشہ اشفاق ہیں۔ ان کی ان تھک محنت کی بدولت اس نئے ڈیپارٹمنٹ میں نہ صرف بی ایس پروگرام متعارف ہوا ہے بلکہ اب اس میں ایم فل کی ڈگری بھی دی جا رہی ہے اور بہت جلد پی ایچ ڈی بھی شروع ہو جائے گی۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے ماہر اب باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ ہم ان میں خود کفیل ہوں گے۔
تبصرے بند ہیں.