خاصی پرانی بات ہے۔ دھیرے دھیرے آتش جوان ہو رہا تھا۔ مسیں بھیگ چکی تھی۔ مانگ سنوارنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ دن میں کئی بار آئینے کے سامنے ہونا معمول بن چکا تھا۔کبھی کبھی بے قراری اور انہونی سوچیں اور خیال دل کے دریا میں غوطہ زن ہونے لگ گئے تھے۔ مگر ان خیالات نے زندگی میں کوئی بے ترتیبی پیدا نہیں کی تھی۔ گاؤں کی پر فضا اور صاف شفاف فضا دیکھ کر تلور (ایک پرندہ) کے غول کے غول کہیں سے ہجرت کر آئے۔ انکی یہ ہجرت عارضی ہوتی ہے۔موسم میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ یہ واپس اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ہمارے سیاست دان مفاد پرستی کی فضا دیکھ کر پارٹی بدل لیتے ہیں۔ یہ پرندے حلال ہیں اور ان کا گوشت بڑے مزے کا ہوتا ہے۔ گاؤں کے باسیوں نے اس پرندے کا شکار شروع کر دیا۔ جن جوانوں کا نشانہ گن سے پکا تھا۔ وہ گن سے شکار کرتے۔کچھ جوان جال بچھا کر یہ فریضہ سر انجام دیتے۔ ہمیں بھی یہ شوق چرایا۔ ہم نے بھی دوستوں کے ہمراہ پروگرام بنایا۔ پروگرام بنانے میں ہم پہلے بھی بہت ماہر تھے۔ہم نے بھی ایک جال لیا اور شکار کی سمت نکل گئے۔ ایک صاف زرعی جگہ دیکھ کر جال تہہ زمین پھیلا کر اوپر ہلکی ہلکی مٹی ڈال دی۔ ایسی ہی ہم عام سال ہا سال اپنی خواہشات،ضروریات اور جائز سہو لیات نہ ملنے پر ڈال رہے ہیں۔ ہم تو ڈال ہی رہے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین اس معاملے میں ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ہم نے بجال سے لیکر دو فرلانگ تک گندم کا ایک دانہ دانہ بکھیر دیا اور جال والی جگہ پر کافی دانے بکھیر دئیے۔ کچھ ہی دیر بعد چند تعداد میں تلور آئے۔ انہیں دیکھ کر اور پرندے بھی آ گئے۔ دانہ چگتے چگتے وہ تلور اور پرندے (جن میں کچھ جیالے، پٹواری، یوتھیئے اور فصلی بٹیرے بھی تھے) جال تک آ گئے۔ ہم نے پوری تاب کے ساتھ جال کھینچا (ہم کونسا مرزا غالب کے تلامذہ میں سے تھے جن کے قویٰ مضمحل ہو گئے ہونگے) تو تمام پرندے جال میں پھنس گئے۔ تلور کے علاوہ دیگر پرندوں میں لوٹے پرندے یعنی کوا، طوطا، لالی، الو بھی شامل تھے۔ ہم نے تمام پرندے پکڑے۔ حلال پرندوں کو جائے موقع پر ہی ذبح کیا اور دیگر حرام خور پرندوں کو انکے پر، چونچیں، انتڑیاں اور کھال نوچنے کے لیے وہیں چھوڑ دیا اور پس شجر ہو کر تماشا اہل کرم دیکھنے لگ گئے۔ ان پرندوں نے پل بھر میں صفایا کیا اور اڑ گئے۔ کووں نے کہیں اپنی سرداری جما لی۔ طوطوں نے حزب اختلاف کی ٹھان لی۔ الو چینی بلیک کرنے کے درپے ہو گئے۔ لالیوں نے سینیٹ کے ٹکٹ کے رولے ڈال لیے۔ گلہریاں کھاد اور گندم بلیک کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ ہم عوامی ذبح شدہ پرندے لیکر گھروں کو روانہ ہو گئے۔ ہماری سیاست کا بھی یہی حال ہے۔ تمام پارٹیاں اپنی اپنی سیاست چمکانے، اقربا پروری کو فروغ دینے میں، اپنی جائیدادیں بنانے میں، لوٹ کھسوٹ کا مال اکھٹا کرنے میں، بینک بیلنس میں اضافہ کرنے میں جتے ہوئی ہیں۔ ہم عوام ایک ایک دانہ چنتے چنتے جال میں مکمل پھنس چکے ہیں۔ یہ ہمیں ذبح کرتے ہیں۔ ہمارا خون چوستے ہیں۔ ہماری کھال اتارتے ہیں اور خود سردار بن جاتے ہیں۔ پوچھیں ہمارے بزرگوں سے، جنہوں نے اس ملک کو بنایا اور قربانیاں دیں۔۔۔ وہ احمد مشتاق کے بقول یہ کہتے ہیں۔
جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
ہمیں کیا ملا؟ بھوک وہ بھی صدیوں کی بھوک: پیاس؟ جو اب دریائے فرات بھی نہیں بجھا سکتا۔ بیماری؟ جس کے لیے کوئی مسیحا نہیں۔ بلکہ مسیحا بھی ڈاکو۔ جہالت۔ تعلیم تو ان کے بچوں کے لیے ہے۔ کہیں ملک کے اندر بڑے بڑے پرائیویٹ اداروں میں اور کہیں بیرون ملک میں۔ بجلی جو اس قدر مہنگی کہ ہماری قسمت کے اندھیروں میں اضافہ ہو گیا۔ گیس؟ جو صرف ان کے محلوں میں ہے۔ پانی؟ جو آلودگی سے بھر پور ہے۔ ادویات جو قوت خرید سے بہت آگے چلی گئی ہیں اور ان کا علاج بیرون ملک میں ہو رہا ہے۔ حیرت ہے اور صد حیرت ہے۔ ایک ہم ہیں کہ انہیں پوجے جا رہے ہیں۔ انہیں مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ انہیں خضر سمجھ رہے ہیں۔ انہیں رہنما سمجھ رہے ہیں۔ کیسا وقت آ گیا ہے؟ کیسا دور وقت آ گیا ہے؟ ہوش و حواس رکھتے ہوئے۔ عقل و فکر و آگہی رکھتے ہوئے۔ ہم راہزنوں کو رہبر سمجھ رہے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں میں خود دھول جھونک رہے ہیں۔ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے۔ اصل ہم خود اپنا، اپنی موجود نسل اور آنے والی نسل کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔ ہم دیدہ دنستہ اپنی بربادی اور تباہی کے درپے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.