پاکستان مسلم لیگ ن لیگ 8 فروری کے عام انتخابات میں قومی و صوبائی نشستوں پر بڑی کامیابی حاصل کرے گی اور اپنے مخالفین کو سرپرائز دے گی۔ کیونکہ ان کی قومی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ میاں محمد نوازشریف جب بھی برسر اقتدار آئے انہوں نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا اور اب بھی حکومت میں آ کر پاکستان میں معاشی ترقی کو بحال کریں گے جس سے عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہو گا اور عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف حاصل ہوگا۔ پی ڈی ایم دور میں مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی اور لیڈر شپ پر مقدمات کی وجہ سے پارٹی ووٹ بینک کو بڑا دھچکا پہنچا، نواز شریف کی وطن واپسی سے(ن) لیگ کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ مہنگائی، بجلی کے مہنگے بلوں سے ستائی غریب عوام کے لیے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جیت ہی مایوسیوں کے اندھیروں میں نئی امیدہے۔ 8 فروری کا سورج نواز شریف کی جیت کا پیغام لے کر طلوع ہوگاانشاء اللہ۔ مسلم لیگ ن نے دہشت گردی کو شکست دے کر امن قائم کیا۔ ملک میں سب سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا بھی اسی جماعت کے سر پر ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے ادوار حکومت میں عوامی خدمت کی مثال قائم کی ہے اور عوامی فلاح اور ملکی ترقی ہی اس کا ایجنڈا ہے۔ نواز شریف کے وزیر اعظم کے طور پر تین ادوار 1990ء سے 1993ء تک، 1997ء سے 1999ء تک اور 2013ء سے2017ء تک، اپنے دور میں انہوں نے مختلف ترقیاتی منصوبے اور پالیسیاں شروع کیں جن کا مقصد پاکستان کے معاشی اور سماجی حالات کو بہتر بنانا تھا۔نواز لیگ نے اپنا منشور بھی عوام کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ن لیگ کی جانب سے اپنے منشور کا عنوان ”پاکستان کو سچے منشورسے نواز دو“ رکھا گیا ہے۔ عوام کوریلیف دینے کے شارٹ اورلانگ ٹرم منصوبے، بجلی کے بھاری بلوں میں ریلیف کے منصوبے کاوعدہ بھی (ن) لیگ کے انتخابی منشور میں شامل ہے۔ منشور میں نوجوانوں کے لئے سب سے زیادہ مراعات دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ نوجوان نسل کو تعلیمی میدان میں ہر ممکن سہولیات فراہم کرنا منشور میں شامل ہو ہے۔ صحت کے حوالے سے اقدامات کے تحت مفت علاج کی فراہمی پر خصوصی توجہ، خواتین کو معاشی میدان میں خود مختار بنانے کے لئے اقدامات، کسانوں کی ترقی ملک کی ترقی قرار دینا بھی منشور کا لازمی حصہ ہیں، اس کے علاوہ ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنا بھی منشور کا حصہ ہے۔ ملک میں زرعی ترقی سے متعلق ہائبرڈ بیج کی تیاری کے لیے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے پہل کیے جانا بھی شامل ہے۔ جبکہ حالیہ سروے کے مطابق مسلم لیگ ن پنجاب میں سب سے زیادہ مقبول اور 45 فیصد کی پسندیدہ جماعت ہے جبکہ پی ٹی آئی 35 فیصد کے ساتھ مقبولیت میں دوسرے اور پیپلزپارٹی 8 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ مذکورہ سروے سے صاف ظاہر ہے کہ ملکی معاشی اور سیاسی بحران کے حل کیلئے 45 فیصد کا نواز شریف پر مکمل اعتما دہے اور 51فیصد نے آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ کی جیت کی پیش گوئی کی ہے۔ جولائی 2018ء میں 32 فیصد پنجاب میں مسلم لیگ ن کو پسندیدہ جماعت کہتے تھے اور ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن حالیہ سروے میں 45 فیصد افراد نے آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کا کہا۔ حالیہ اضافے سے مسلم لیگ ن 2013ء کی مقبولیت واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا کہنے والوں کی شرح 1 فیصد اضافے کے بعد 35 فیصد، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کاکہنے والے افراد کی شرح 3 فیصد اضافے کے بعد 8 فیصد ہوگئی ہے۔ دیگر جماعتوں میں جماعت اسلامی کو 2 فیصد، جبکہ استحکام پاکستان پارٹی کو1فیصد نے ووٹ دینے کے لیے پسند کیا، 10 فیصد نے دیگر نام لیے۔ اس سوال پر کہ کونسا سیاسی لیڈر پاکستان کو سیاسی اور معاشی بحران سے باہر نکال سکتا ہے؟45 فیصد نے نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایک اور حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنے نشان کے ساتھ بھی الیکشن لڑے تو مقابلہ بڑا سخت ہونے کا امکان ہے کیونکہ سوشل اور روایتی میڈیا میں رائج عام تاثر کے برعکس ن لیگ نے نمایاں طور پر اپنا کھویا مقام دوبارہ حاصل کرلیا ہے حتیٰ کہ خیبرپختونخوا میں بھی مقابلہ آسان نہ ہوگا۔گیلپ پاکستان کی جانب سے کیے گئے سروے میں بتایا گیا کہ نواز شریف کے لاہور آنے سے ایک ہفتہ قبل تک پی ٹی آئی کی مقبولیت ن لیگ سے 15 فیصد زیادہ تھی۔ تازہ ترین سروے کے مطابق یہ فرق اب کم ہو کر چار فیصد رہ گیا ہے۔سب سے بڑے صوبے کے تین علاقوں جنوبی، وسطی اور مغربی پنجاب میں مقبولیت کا فرق تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہ محض ایک سے دو فیصد ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو عوام میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے تاہم سیاسی جماعتوں کی مقبولیت سے متعلق ہونے والے مختلف تازہ ترین سروں کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ ن ووٹرز کی پسندیدہ ترین جماعت بن چکی ہے۔ نواز شریف کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ن لیگ کے قائدکا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت وہ جلاوطنی ختم کر کے اکتوبر 2023ء میں وطن واپس آئے تھے۔ اگرچہ شہاز شریف کی حکومتی پالیسیوں سے عوام نالاں رہی۔ مگر لوگ آج بھی شہباز شریف کی پنجاب میں دس سالہ دور یاد کرتے ہیں۔ جس کی دوسرے صوبوں کی عوام اور حکومتیں بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئیں تھیں بلکہ بیرون ممالک کے حکمران آج بھی وزیراعلیٰ شہباز شریف کی عوام دوست پالیسیوں پر شاباش دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی چین، سعودی عرب، برطانیہ، جرمنی اور ترکی جیسے ممالک میں پذیرائی ہوئی۔ پنجاب میں شہباز شریف کے دور میں ان ممالک کے ساتھ توانائی، تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں معاہدے کئے گئے۔جبکہ دوسرے صوبوں میں پنجاب حکومت کے تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اورپنجاب میں توانائی، صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبے مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کا طرہ امتیاز ہے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب حکومت کی ہر شعبے پر نظر تھی۔ پاکستان میں ہمیشہ سے اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔ یقینایہ وفاقی سبجیکٹ ہے مگر شہباز شریف نے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے صوبائی سطح پر جو بھی ممکن تھا وہ کیا۔ اس کیلئے پنجاب میں اوور سیز پاکستانیز کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کے زیر اہتمام پہلا کنونشن مئی 2014ء کو لاہور میں ہوا۔ بے شک! مسلم لیگ (ن) 8 فروری کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی اور حقیقی معنوں میں عوامی حکومت بنائے گی۔
تبصرے بند ہیں.