قائد نواز لیگ اور بانی پی ٹی آئی

130

پی ٹی آئی کے بھونپوئوں کا دعویٰ رہا ہے کہ ان کا بانی چئیرمین، مسلم لیگ نون کے قائد کی طرح، ڈیل کر کے ملک سے باہر نہیں جائے گا اور یہ کہ خان ڈٹ کر کھڑا ہے مگر اس بیانئے کے رنگین غبارے سے خود بانی پی ٹی آئی نے جیل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ہوا نکال دی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ سیاسی آدمی ہیں اور انیس ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پی ڈی ایم کی تین رکنی کمیٹی سے مذاکرات ہوئے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد انتخابات کروائے جائیں جس کی وجہ سے وہ ناکام ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوکٹے کی کھچڑی پک رہی ہے مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ایسی ہی ایک کھچڑی میں آج سے پانچ برس پہلے پکنے والے خود ایک ریلو کٹے تھے۔

یہاں دو سوال اہم ہیں کہ کیا عمران خان واقعی ڈٹے ہوئے ہیں اور ڈیل کر کے ملک سے نہیں جانا چاہتے تو اس گفتگو کے بعد، ان کے لئے بہت کچھ واضح ہو گیا ہے جو عقل کے اندھے نہیں ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی حکومت کی رخصتی کے عمل کے دوران اور رخصتی کے بعد بھی ہرگز، ہرگز ڈٹے ہوئے نہیں تھے، وہ مذاکرات کرنا چاہتے تھے، نئی ڈِیل کرنا چاہتے تھے مگر کوئی ان سے معاملات طے کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی نہیں۔ حالانکہ جنرل صاحب وہ دوست تھے جو گھنٹہ گھنٹہ ، وزیراعظم کے دفتر کے باہر بیٹھ کے ان کا انتظار بھی کر لیا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما ابھی گذشتہ روز ہی اخبارات کے ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں کو گلبرگ میں ہونے والی ملاقات میں بتا رہے تھے کہ سابق آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان اتنی زبردست کوارڈینیشن تھی کہ ا نہوں نے حکومت کے دو ، سوا دو سال بعد وزیروں سے عمران خان کے بغیر ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اوراس ملاقات میں بھی حُکم دیا کہ وزرا اختلافات بھُلا کے عمران خان کا ساتھ دیں کیونکہ وہ پاکستان کا بڑا کام کر رہا ہے۔ اب وہ کام کیا تھا وہ جنرل صاحب ہی بتا سکتے ہیں کیونکہ مونس الٰہی کے مطابق یہ قمر جاوید باجوہ ہی تھے جنہوں نے چوہدری پرویز الہی کو آصف علی زرداری سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے پی ٹی آئی سے جا ملنے کا کہا تھا۔ قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کاتبان کن ر ومانس اس وقت تک چلا تھا جب تک پاکستان ڈیفالٹ کے دھانے پر نہیں پہنچ گیا مگر پھر ’ادارے‘ نے آئینی اورقومی کردار ادا کرتے ہوئے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دبائو ختم ہوا تھا تو عمران خان کے اتحادی یوں جان چھڑوا کے بھاگے تھے جیسے چوہا بلی کے شکنجے سے بھاگتا ہے۔ بلی پیچھے سے پکارتی ہے، پیارے چوہے، تم اپنی دُم تو لے جائو اور چوہا چیخ کر کہتا ہے، بخشو بھی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ اصل موضوع پرآنے سے پہلے ایک اور حوالہ دیتا جائوں کہ عمران خان نے ایوان صدر کو بھی مذاکرات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی اور جنرل صاحب علوی صاحب کے دباو پر اس ملاقات کے لئے پہنچے بھی تھے۔ عمران خان نے مذاکرات کے لئے صدر مملکت کو اس وقت بھی استعمال کرنے کی کوشش کی جب نئے سپہ سالار نے ذمے داریاں سنبھا لیں۔ عمران خان ان کی پوسٹنگ کے وقت ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لئے لانگ مارچ جیسی حماقت کر چکے تھے۔ الحمد للہ، سپہ سالار نے جواب دیا تھا کہ آپ پاکستان کے صدر ہیں، آپ سے میری بات ہو سکتی ہے مگر کسی سیاستدان سے نہیں۔ پاکستان کے سپہ سالار کے بارے ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے لابنگ کے لئے اب تک کسی سیاستدان اور کسی یوٹیوبر سے ملاقات نہیں کی، آہ، مجھے یاد آ گیا کہ عمران خان کو لانے والے کہتے تھے کہ وہ ایک نیولا نما یوٹیوبر کو صبح شیو کرتے ہوئے سنا کرتے تھے، آہ، کیا ’پے تھے ٹِک‘ معیار تھا۔ مورخ جانتا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ بھی مذاکرات کرنے کا دبائو تھا اور اسلام آباد پر حملہ بھی بلکہ تکلف برطرف،خیا ل تھا نو مئی برپا ہو گا تو ریاستی قیادت اس کے سامنے روتی دھوتی، معافی مانگتی ہوئی آجائے گی اور وہ جیل سے فتح کے پھریرے لہراتا صلاح الدین ایوبی بن کے نکلے گا۔

یہ بات تو ہوائی ہے کہ پی ٹی آئی کا بانی ڈٹا ہوا ہے یا وہ صرف اپنی شرائط پر بات کرنا چاہتا ہے۔ اب اگلی بات بھی کر لیتے ہیں کہ وہ نواز شریف کی طرح جلاوطن نہیں ہوگا تواس میں ایک سچ یہ ہے کہ وہ جلاوطن نہیں ہوگا مگر اس سچ کے پیچھے بڑا سچ یہ ہے کہ کوئی اسے جانے ہی نہیں دے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کے وکیلوں سے (جس میں ایوان صدر میں بیٹھے ہمارے دندان ساز صدر سب سے بڑے وکیل ہیں) پوچھا جاتا ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی پر نواز شریف سے آدھا اعتماد بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ کوئی نئی مہم جوئی نہیں کرے گا، ریاست کے خلاف سازش نہیں کرے گا، الطاف حسین کی طرح اول فول نہیں بکے گا۔ دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کو ملک سے باہر جانے دیا جائے تو اس امر کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کی پاکستان دشمن لابیوں کو ریاست کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ تیسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ وہ کون سی قومی اوربین الاقوامی شخصیت ہو سکتی ہے جو بانی پی ٹی آئی کی گارنٹی دے سکتی ہے کہ دوبارہ نو مئی جیسی حرکت نہیں کرے گا، ذمہ دارانہ سیاست کرے گا کہ اس نے حال ہی میں اور جیل ہی میں اس نے مجیب الرحمان بننے کا عندیہ بھی دیا ہے حالانکہ مجیب الرحمان کے وقت بہت سارے عوامل اور عناصر ایسے تھے جو بہرحال اس وقت بانی پی ٹی آئی کو دستیاب نہیں ہیں۔ انہیں اس وقت عدلیہ میں گذشتہ پچیس برسوں میں داخل کئے گئے عناصر کی سرپرستی حاصل ہے سو انہیں تفتیشوں اور سماعتوں تک پر سٹے آرڈر مل رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے قبل مجیب الرحمان کو بھی مضبوط ہونے کے لئے انسانی اور آئینی حقوق کے نام پر ایسی پشت پناہی فراہم کی گئی تھی اور پھر اس نے پاکستان توڑ دیا تھا۔ سچ یہی ہے کہ قائد نواز لیگ اور بانی پی ٹی آئی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ قائد نواز لیگ پر، ان کے بدترین مخالفین سیاسی اختلافات کے باوجود اتنا ڈھیر سارا اعتماد کر سکتے تھے جتنا ایک خاندانی، شریف، باوقار، نرم خُو، محب وطن اور اعلیٰ ظرف شخص پر کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ موقع پرست، جھوٹے، تھڑدلے، بڑھک باز اور وعدہ شکن نہیں تھے۔ قائد نواز لیگ کا کردار ایسا تھا کہ دنیا بھر کے حکمران ان کی گارنٹی دے سکتے تھے مگر دوسری طرف معاملہ سو فیصد ’وائس ورسا‘ ہے۔

تبصرے بند ہیں.