ایرانی پاسداران انقلاب کا پاکستان کی خود مختاری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلوچستان کے علاقے پنجگور پر بیلسٹک میزائل اور ڈرون سے حملہ کرنا باعث حیرت ہے۔ ایران کا مؤقف یہ تھا کہ وہاں موساد کے اسرائیلی دہشت گرد چھپے ہوئے تھے۔ اس کے جواب میں پاکستانی فورسز اگلے دن بلوچستان سے ملحقہ ایرانی صوبے سیستان میں 31 کلو میٹر اندر بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس کے بعد پوری دنیا کی نگاہیں اس خطے پر مرکوز ہو گئی ہیں امریکہ، چائنہ، ترکی اور کئی ممالک نے اس نئی Escalation کو روکنے اور پرامن بقائے باہمی اور سفارتکاری پر زور دیا ہے۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسے وقت میں ایران نے ایک نئے محاذ پر مس ایڈونچر کرنے کا کیسے سوچ لیا جبکہ ایران بذات خود اسرائیل پر حماس حملوں اور اسرائیل کے فلسطین کے خلاف اعلان جنگ کی وجہ سے ایک طرف تو حماس اور حزب اللہ کو سپورٹ جاری رکھے ہوئے ہے، دوسری طرف ایرانی شہر پر ہی یمن کے باغی حوثیوں نے خلیج فارس میں تجارتی امریکی اور برطانوی بحری جہاوں پر حملے شروع کر رکھے ہیں جس کے جواب میں امریکہ یمن میں حوثی خفیہ ٹھکانوں پر بمباری کر رہا ہے۔ پاکستان پر جو حملہ کیا گیا ہے اس سے کچھ ہی دیر پہلے ایران کی جانب سے شام اور عراق کے علاقوں پر بھی اس طرح کے حملے کیے جا چکے تھے جس کا ایران نے اعتراف کیا ہے۔
امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے ایرانی انٹیلی جنس چیف جنرل قاسم سلیمان کی تیسری برسی کے موقع پر 5 جنوری کو کرمان میں 2 خودکش حملوں میں 84 سے زیادہ بے گناہ شہری مارے گئے تھے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی مگر ایران یہ سمجھتا ہے کہ اس میں کسی نہ کسی طرح اسرائیل اور امریکہ ملوث ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اتنے گمبھیر حالات میں ایران کو پاکستان پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی جبکہ وہ اس وقت چاروں طرف سے خطروں میں گھرا ہوا ہے اور پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات اس حد تک کشیدہ نہیں ہیں کہ سفارتکاری کو موقع دیئے بغیر اس طرح کا رسک لیا جاتا۔ کہیں یہ کوئی پلانٹڈ واردات یا False Flag آپریشن تو نہیں ہے کہ کوئی تیسری ریاستی یا غیر ریاستی قوت ان کے درمیان جنگ شروع کرانا چاہتی ہے تا کہ ایران کو سبق سکھایا جا سکے یا اس کے خلاف مڈل ایسٹ میں پرانے روایتی تنازعات کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔ یا یہ مفروضہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے کہ ایران کے خلاف کسی کارروائی کے لیے پاکستان کے ساتھ اس کے ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ کسی مرحلے پر پاکستان اپنی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہونے دے سکے۔
اب پاکستان کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو کئی اور سربستہ معاملات سامنے آتے ہیں بلوچستان میں جہاں پر اس جنگی زلزلے کا مرکز بن رہا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستان افغانستان اور ایران تینوں ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں یہ پاکستان کا مغربی محاذ ہے جو 2600 کلو میٹر طویل ہے جس میں 1600 کلو میٹر افغانستان کے ساتھ اور ایک ہزار کلو میٹر ایران کے ساتھ بارڈر لگتا ہے۔
اسے آپ اتفاق نہ سمجھیں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں ریکو ڈک منصوبہ پر اس سال کام شروع ہونا ہے جس سے پاکستان کو کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کی طرف سے ابتدائی طور پر 10 ارب ڈالر کا ٹھیکہ دیا جانا ہے جس میں 5ہزار بلوچوں کو روزگار کے مواقع اور علاقے میں سڑکوں کا بنیادی ڈھانچہ اور سکولوں اور یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جانی ہے جو معاہدے کا حصہ ہے اس معاہدے کی سب سے بڑی شرط علاقے میں قیام امن اور سکیورٹی کی صورتحال کی گارنٹی کا حصول ہے۔
ریکوڈک منصوبے کی اہمیت اب پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے کیونکہ دنیا بھر میں الیکٹرونک گاڑیوں یا EV ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کا پر یا تا نبے کا کلیدی کردار ہے اس وجہ سے عالمی مارکیٹ میں کاپر کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں اور پاکستان میں ریکوڈک کی کانوں میں کاپر اور سونے کے خزانے دنیا میں پاکستان کو کاپر کی عالمی منڈی کا ایک اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر دیکھتے ہیں مگر سو باتوں کی ایک ہی بات یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کی کامیابی خطے میں امن سے مشروط ہے۔
پاکستان کے End پر دوسری اہم بات کے حالیہ ایران حملے کے 24 گھنٹے کے اندر پاکستان نے ایران پر جوابی حملہ کیوں کیا ہے۔ اس سال پاکستان اور انڈیا دونوں روایتی ہمسایہ ممالک جو ایک دوسرے سے مخاصمت کی 75 سالہ تاریخ رکھتے ہیں ان دونوں ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں پاکستان سمجھتا ہے کہ اس موقع پر انڈیا کی طرف سے مودی کے گزشتہ الیکشن کی طرح کسی False Flag آپریشن کو بنیاد بنا کر انڈیا ابھی نندن جیسا کوئی ڈرامہ کر سکتا ہے جس کے لیے پاکستان کو Deterrence یا پیشگی دفاع اور مزاحمت کا راستہ ناگزیر ہے تا کہ انڈیا کو یقین ہو کہ پاکستان ہر صورت اس طرح کے ایڈونچر پر جواب فوری دے گا۔ اب جبکہ ایران کی طرف سے شرارت ہوئی تو اس پر خاموش رہنے کا مطلب انڈیا کو پیغام دینا تھا کہ کل کو اگر انڈیا نے بھی الیکشن کے جوش و خروش میں ایسا کچھ کر دیا تو پاکستان چپ کر کے بیٹھ رہے گا اس تاثر کو غلط ثابت کرنے اور انڈیا کو مستعدی کا پیغام دینے کی خاطر پاکستان نے ایران کو فوری جواب دیا ہے تا کہ انڈیا کو محتاط کیا جا سکے۔
البتہ ایک سوال ہے جس پر سب کی نظریں اٹھ رہی ہیں کہ ایران نے حملہ اس وقت کیا جب پاکستان میںنگران حکومت قائم ہے پارلیمنٹ موجود نہیں ہے نگران وزیراعظم ملک میں موجود نہیں تھے وہ ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں جنیوا میں تھے تو ایران کو جواب دینے کا فیصلہ کس سطح پر کیا گیا کیونکہ ابھی تک نگران وزیراعظم یا صدر نے اس کو own نہیں کیا۔ امید کی جا رہی ہے کہ اب ایران ہوش کے ناخن لیتے ہوئے مزید کوئی کارروائی نہیں کرے گا اور بات چیت اور سفارتکاری کا راستہ اختیار کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی ملک نے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان اچانک اٹھنے والے تنازع میں مصالحت کی پیش کش نہیں کی خاص طو پر عرب ممالک کی طرف سے تو کوئی رسمی بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔
تبصرے بند ہیں.