پاکستان پاک فوج کی وجہ سے غزہ نہیں بنا

40

غزہ سٹی کے تین ہمسائے ہیں۔ مصر، سمندر اور اسرائیل۔ اِن تین ہمسائیوں میں صرف ایک یعنی اسرائیل غزہ کے مسلمانوں کا جانی دشمن ہے۔ ہمسائیگی اختیار کرنے سے لے کر اب تک اسرائیل کی غزہ کے مسلمانوں کو برباد کرنے کی کوششیں پہلے سے بڑھ کر ہی ہوتی ہیں جن کی مثال تاریخ میں تلاش نہیں کی جا سکتی۔ ساری دنیا کے لوگوں کے ضمیر کی آواز کے آگے بھی صرف ایک اسرائیل کی آواز بھاری رہتی ہے۔ گویا غزہ کے مسلمانوں کا صرف ایک دشمن ہی انہیں دن رات لہولہان کئے جا رہا ہے۔ اب دوسری طرف دیکھیں تو پاکستان کے چار ہمسائے ہیں جن میں بھارت، ایران، افغانستان اور چین شامل ہیں۔ اِن چار میں سے ایک یعنی بھارت پاکستان کا براہِ راست جانی دشمن ہے جبکہ افغانستان اور ایران کے ساتھ بھی شکوک و شبہات اور تلخیوں والا ہی تعلق ہے۔ چار میں سے صرف چین ایک ایسا ہمسایہ ہے جس کی طرف سے پاکستان کو بے فکری ہے۔ گویا پاکستان کو چار میں سے تین ہمسائیوں سے ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے اور ماضی میں اِن ہمسائیوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ چھوٹی بڑی محاذ آرائیوں کے بہت سے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب پھر عرب کے مسلمان ملکوں کی طرف چلتے ہیں۔ عراق، شام، لیبیا، مصر اور لبنان ایسے مسلمان ممالک ہیں جہاں اندرونی خلفشار اور سیاسی محاذ آرائیاں خونخوار خانہ جنگی میں بدل چکی ہیں۔ عمومی طور پر خانہ جنگی کسی منظم بیرونی سازش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ گویا یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ عرب ممالک میں لاتعداد سازشوں پر بے بہا سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ آئیے پھر پاکستان لوٹتے ہیں۔ اگست 1947ء سے لے کر 2024ء تک پاکستان کے اندر بھی بہت سے چھوٹے بڑے سیاسی طوفان آئے لیکن اُن کی صورتحال عرب ممالک میں ہونے والی خانہ جنگی کی طرح نہیں تھی۔ گویا پاکستان کے اندر پیدا ہونے والے سیاسی خلفشار کو کسی نہ کسی طریقے سے سنبھال لیا گیا۔ بعض اوقات اس کسی نہ کسی طریقے کا نام مارشل لاء بھی رکھ دیا جاتا تھا۔ تاہم حتمی نتیجہ سِول تشدد کے خطرات کا ٹل جانا ہی ہوتا تھا۔ اوپر دیئے گئے دلائل سے دو سوالات بناتے ہیں۔ (1) غزہ کا صرف ایک ملک دشمن ہے جس نے غزہ کی بوٹیاں کر دی ہیں۔ پاکستان کے تین ہمسائے پاکستان سے ناخوش ہیں لیکن اُن تینوں کا پاکستان کے خلاف زیادہ بس نہیں چلتا۔ کیوں؟ (2) دنیا کے سب ملکوں کی طرح عراق، شام، لیبیا، مصر اور لبنان میں بھی اپوزیشن اور اختلافِ رائے تھا مگر اِن تیل سے مالامال مسلمان ملکوں کو کمزور کرنے اور توڑ پھوڑ دینے کے لیے اِن کی اپوزیشن اور اختلاف رائے میں بیرونی سازشیں شامل ہو گئیں۔ اب یہ سب ممالک انسان تو ایک طرف، چرند پرند کے لیے بھی امن کی جگہ نہیں رہے۔ پاکستان میں بھی اتنی ہی شدید اپوزیشن اور اختلاف رائے آتی جاتی رہی لیکن بیرونی سازشیں اب تک اپنی کوئی مستقل جگہ نہ بناسکیں۔ کیوں؟ ان دونوں سوالات کا بہت ہی آسان جواب موجود ہے۔ مسئلہ صرف تسلیم کرنے کا ہے۔ یعنی ہم اس بات کو مان لیں کہ پاک فوج کا مضبوط ہونا، بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا حامل ہونا اور دوراندیش ہونا تین مخالف ہمسائیوں کے باوجود پاکستان کو غزہ بننے سے بچائے ہوئے ہے۔ اگر عراق، شام، لیبیا، مصر اور لبنان کے پاس بادشاہوں کی حمایتی غیرپیشہ ورانہ فوج کی بجائے پاک فوج کی طرح جمہوری اور باصلاحیت فوج ہوتی تو یہ ممالک بھی بیرونی سازشیوں کو اپنے ملکوں میں لاشوں کے ڈھیر نہ لگانے دیتے۔ اگر غزہ کے پاس پاک فوج جیسی منظم فوج ہوتی تو اسرائیل کے میزائل غزہ کے بچوں اور عورتوں کو نہ چیرتے۔ اس تجزیئے کے بعد بات ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت ہی حساس تجزیہ سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر یہ بات ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ تین مخالف ہمسائیوں کے باوجود پاک فوج کی وجہ سے پاکستان غزہ نہیں بنا اور پاک فوج کی وجہ سے ہی یہاں اب تک خانہ جنگی نہیں ہوئی تو کیا بیرونی سازشیوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی ہوگی؟ کیا وہ اپنے ناپاک منصوبوں کے راستے میں حائل رکاوٹ کو ہٹانے یا بدنام کرنے کی فکر میں نہیں ہوں گے؟ کیا اس حساس تجزیئے کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم سب اپنے، اپنی نسلوں اور اپنے ملک کے بچائو کے لیے اپنے دفاعی اداروں کو ڈسٹرب نہ کریں تاکہ پاکستان غزہ بننے سے بچا رہے؟

تبصرے بند ہیں.