عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

67

برصغیر میں آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی زندگی روایتی بادشاہی روایات سے پر تھی جس میں حاکم سے محکوم ہونے کے درمیان چند لمحوں کا فاصلہ ہوا کرتا تھا۔ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی میں مغل بادشاہ کی برائے نام حکمرانی صرف دلی تک محدود ہو گئی تھی اور بادشاہ عملاً تاج برطانیہ کا وظیفہ خوار تھا جب اس نے باغیوں کا ساتھ دیا تو دلی کے کور کمانڈر میجر ہڈسن اور ان کے دست راست مولوی رجب علی نے بادشاہ کو معزول کر کے گرفتار کیا اور اس پر مقدمہ چلایا کہ ملزم نے ایسی سلطنت کے خلاف بغاوت کی حمایت کی جس کے دیئے ہوئے ماہانہ وظیفہ سے اس کے محل کا خرچہ چلتا تھا اسے جلا وطن کر کے برما بھیج دیا گیا جہاں 1862ء میں نظر بندی میں ہی اس کا انتقال ہوا اس نے اس شرط پر سرنڈر کیا تھا کہ اسے اور اس کی بیگم زینت محل کی جان کی ضمانت دی جائے گی۔ بہادر شاہ ظفر شاعر تھا۔ اس نے اپنا مشہور شعر لکھا کہ
صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا

پرانے بادشاہوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا مگر جمہوریت کی آمد کے بعد انتقال اقتدار سے وابستہ نشیب و فراز ختم ہو گئے لیکن دور جدید کے جمہوری نظام میں میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی اقتدار قیدو بند اور جلاوطنی سے بھرپور ہے بلکہ بہادر شاہ ظفر یا دیگر بادشاہوں کے ساتھ جو کام زندگی میں ایک ایک بار ہوا وہ ان کے ساتھ بار بار ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پرانے بادشاہ معزول ہوتے یا قید ہوتے تو وہ ان کا آخری باب ہوتا تھا لیکن نواز شریف ہر بار رہا بھی ہوتے ہیں وطن واپس بھی آتے ہیں اور کھویا ہوا تاج و تخت بھی پھر سے حاصل کر لیتے ہیں یہ ایک دو یا تین بار نہیں بلکہ چوتھی بار ہونے جا رہا ہے۔

2014ء میں جب نواز شریف کو گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری جاری کی گئی تو سیاسی طور پر اس پر بڑا شور مچا تھا جس کے جواب میں جی سی کے اس وقت کے وی سی نے کہا تھا کہ ہماری یونیورسٹی کا کوئی اور طالب علم بھی اگر تین دفعہ وزیراعظم رہا ہے تو ہم اسے بھی پی ایچ ڈی ڈگری دینے کے لیے تیار ہیں۔

2024ء کا سال نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لیے کافی خوشگوار نظر آتا ہے بقول مرزا غالب
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے یہ سال اچھا ہے

اس سال نواز شریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے راستے کی آخری رکاوٹ نہیں تاحیاتی نا اہلی بھی سپریم کورٹ نے ختم کر دی ہے یہ ان کے راستے کا آخری پتھر تھا۔
حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دینی آں پیر دا جے سر دا سائیں مرے
کتی مرے فقیر دی جیہڑی ٹاؤں ٹاؤں نت کرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے
سنجیاں ہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے

اس صوفیانہ شاعری کی آپ کو عملی تفسیر دیکھنا ہو تو گزشتہ سال میاں نواز شریف کی لندن کے ایون فیلڈ محلات سے واپسی سے لے کر اب تک کے واقعات کا جائزہ لیں تو ایک جادو نگری کا گماں ہوتا ہے جہاں ان کے ہاتھ میں ایسی چھڑی آ گئی ہے جس سے ان کے مخالف نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ عدلیہ اور ریاستی ادارے ان کے یک جنبش ابرو کے منتظر رہتے ہیں اور وہ اپنے لیے اگر مٹی کو ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ سونا بن جاتی ہے۔ لیکن ان سب پلس پوائنٹس کے باوجود وہ بڑے محتاط طریقے سے کھیل رہے ہیں ۔ میاں صاحب کا پھونک پھونک کر قدم رکھنا۔ بجا ہے ایک طرف تو انہیں اپنے چوتھی بار اقتدار سے زیادہ اپنی جانشینی کی فکر ہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بعد پارٹی قیادت اور اقتدار پر سب سے پہلا حق مریم نواز کا تسلیم کیا جائے اس پر پارٹی کے اندر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز ہیں جو سیاست میں seniority کے لحاظ سے مریم سے زیادہ پرانے ہیں میاں نواز شریف نہیں چاہتے کہ جاوید ہاشمی، چوہدری نثار علی خاں، شاہد خاقان عباسی، سردار مہتاب عباسی، میاں اظہر، چوہدری شجاعت حسین کی طرح شہباز شریف ن لیگ چھوڑ دیں اس لیے وہ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے مریم نواز کو وزیراعظم بنوانا چاہتے ہیں۔

سیاسی ستاروں کے علم کے ماہرین نے میاں صاحب کے ایون فیلڈ سے واپسی کے سارے بیانات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اگر چوتھی بار وزیراعظم بن بھی گئے تو یہ باری بھی پچھلی باریوں سے مختلف نہیں ہو گی جب سٹیئرنگ ان کے ہاتھ آئے گا تو وہ اپنی مرضی کی لانگ ڈرائیو چاہتے ہیں ان کے دل کے نہاں خانوں میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کرنے کی شدید خواہش ہے جو گزشتہ مدت میں ان کے اقتدار کی پرواز میں خلل اندازی کر کے اس کی کریش لینڈنگ کا سبب بنے۔

ویسے بھی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت اتحادی ہو گی ۔ اس لیے انہیں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ زرداری ڈاکٹرائن سے فائدہ اٹھائیں۔ جو بات مرزا غالب نے عشق کے بارے میں کہی تھی میاں صاحب کے لیے وہ اقتدار پر صادق آتی ہے کیونکہ یہ ان کا عشق ہے۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد لادوا پایا

تبصرے بند ہیں.