جمہوریت کا دکھ

108

پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے کو بحال کرتے ہوئے تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لے لیا ہے ۔جو کچھ ہوا ور جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کوئی جمہوریت پسند خوش نہیں بلکہ یقینا دکھی ہو گا۔ ہم تحریک انصاف سے شدید نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم نے اپنی گذشتہ تحریروں میں ہر اس عمل کی ڈٹ کر مخالفت کی کہ جس میں تحریک انصاف کو اس کے جمہوری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بات یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ یک طرفہ ہو رہا ہے۔ اندازہ کریں کہ خان صاحب سے جے آئی ٹی میں سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ جنرل فیصل نصیر سے کبھی ملے ہیں۔ جواب۔ نہیں۔ کیا آپ کی کبھی ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ نہیں۔ کیا آپ کی کبھی ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے۔ نہیں۔ کیا آپ کو انھوں نے کبھی دھمکی دی۔ نہیں۔ کیا کسی اور کے ذریعے دھمکی دی۔ نہیں پھر آپ کو کیسے پتا چلا کہ وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ جواب۔ کسی نے بتایا تھا ۔ وہ کون ہے۔ مجھے یاد نہیں۔ یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے کہ جو ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے لیکن اسے احساس ہی نہیں ہے کہ اس طرح کے مذاق تو ذاتی زندگی میں فائدہ نہیں دیتے تو ملک و قوم کی تقدیر جن معاملات جڑی ہو ان پر اس طرح کا غیر سنجیدہ طرز عمل جو واضح طور پر ملک دشمنی کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے کیا کسی ہوش مند انسان سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کے طرز عمل کا مظاہرہ 2013 کے الیکشن کے بعد بھی کیا گیا اور 35 پنکچرز کا واویلا کر کے لانگ مارچ کیا اور126دن تک دھرنا دیا گیا۔ چین ایسے دوست ملک کے صدر کا انتہا ئی اہم دورہ ملتوی ہوا لیکن یا حیرت کہ بعد میں جب کسی نے 35 پنکچرز کے متعلق سوال کیا تو کہا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔ سوچنا چاہئے کہ ایسے بندے کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانا چاہئے تھا یا کسی دماغی ہسپتال میں داخل کرانا چاہئے تھا ۔

سائفر لہرا کر کہتے ہیں کہ ہم کوئی غلام ہیں لیکن پھر امریکہ میں امریکی حکومت سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے ایک سے زائد فرمز ہائر کرتے ہیں۔ 65 انڈیا اور اسرائیل نواز امریکن سینٹرز کو ریاست پاکستان کے خلاف خط لکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ بیرون ملک آپ کا سوشل میڈیا آپ کی مکمل آشیر باد سے پاکستان کے خلاف انڈین میڈیا کے ساتھ مل کر پروپیگنڈا کرتا ہے۔ آپ کے کہنے پر شوکت ترین پنجاب اور خیبر پختون خوا کے وزرائے خزانہ کو آئی ایم ایف کو خط لکھ کر قرض کی قسط رکوانے کا کہتے ہیں۔بغیر کسی وجہ کے فقط ذاتی پسند و نا پسند کی وجہ سے آپ آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازع بناتے ہیں اور آخری وقت تک آپ ان کی تعیناتی رکوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گرفتار ہوتے ہیں تو کمرہ عدالت میں بیٹھ کر ایک ٹی وی چینل پر آرمی چیف کا نام لے کر کہتے ہیں کہ آپ کی گرفتاری ان کے کہنے پر ہوئی۔ موجودہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھی آپ بھیج دیتے ہیں ۔سب سے بڑھ کر آپ خبط عظمت میں 9مئی کر دیتے ہیں تو اس کے بعد کیسے توقع کرتے ہیں کہ آپ کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل جائے ۔ آپ کو 2020 اور2021 میں جب آپ حکومت میں تھے تو الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کا کہا لیکن آپ نے نہیں کرائے۔ آپ کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ Nomination Papers میں تائید کنندہ اسی حلقہ کا ہونا چاہئے لیکن معاملات کو متنازع بنانے کے چکر میں آپ اپنے کاغذات نامزدگی پرحلقے کے باہر کے بندوں سے دستخط کراتے ہیں۔

ہمیں اور ہر جمہوریت پسند کو یہ دکھ نہیں ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے بلکہ دکھ یہ ہے کہ آپ کے غیر جمہوری طرز عمل کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں لوگ جو تحریک انصاف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ کہیں اپنے حق رائے دہی سے محروم نہ رہ جائیں ۔ قوی امید ہے کہ سپریم کورٹ سے تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس مل جائے گا۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، استحکام پاکستان، ق لیگ اور آزاد۔ یہ چھ فریق ہیں کہ جن کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ نتائج کچھ بھی حاصل کر لیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر لاکھوں عوام ووٹ کے حق سے محروم رہتے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ آج بیشک تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بہت زیادہ طاقتور ہے اور وہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنانے کی طاقت رکھتا ہے اور بانی تحریک انصاف معاملات کو متنازع بنا کر ملک میں خلفشار پیدا کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن لوگ اتنے بیوقوف بھی نہیں اور نہ ان کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ 2018 میں جو کچھ ہوا تھا اور جس طرح الیکشن کرائے گئے تھے وہ اسے بھول گئے ہوں۔ کوئی بھی جمہوریت پسند یہ نہیں چاہے گا کہ جو کچھ 2018 میں ہوا تھا اور جس طرح کے انتخابات اس وقت ہوئے تھے اسی طرح سب کچھ اب بھی ہو اور اسی طرح کے انتخابات کرائے جائیں اس لئے کہ اگر سب کچھ اسی طرح ہونا ہے تو پھر عقل کے اندھے کو بھی نظر آ رہا کہ اس سارے عمل کو دہرانے کے نتائج بھی اسی طرح کے برآمد ہوں گے اور ہمارا دائروں کا سفر جاری رہے گا۔ یہ کھیل ختم ہونا چاہئے اس لئے کہ نقصان کسی اور کا نہیں بلکہ ملک و قوم کا ہوتا ہے۔ ہم کس حد تک دائروں کے سفر کے اسیر ہو چکے ہیں کہ اپنے ذہن پر زور دے کر گذشتہ دس پندرہ برسوں کا سوچیں کہ اس میں اس دوران جتنی بریکنگ نیوز قوم کو سننے کو ملی ہیں تو اس میں عدالتی فیصلوں سے ہٹ کر بہت کم خبریں ملیں گی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہم انتشار کا سفر جو دائروں میں کر رہے ہیں اس کے کس قدر عادی ہو چکے ہیں یا بنا دیا گیا ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کوئی اور نہیں بلکہ سب سے زیادہ جمہوریت اور جمہوریت پسند دکھی ہیں ۔

تبصرے بند ہیں.