الیکشن کا وقت قریب آ رہا ہے مگر سیاسی عدم استحکام کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہر نئے دن کے ساتھ ایک نئی خبر سننے کو ملتی ہے۔ کبھی نااہلی کی خبریں تو کبھی ایک ہی پارٹی کے نشان کو واپس لینے کی خبریں گردش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس سے پہلے بھی 28 جولائی 2017 سے معاملہ شروع ہوا 14 فروری 2018 میں بھی ایک عدالتی فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا، وہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دئیے گئے شخص کی نااہلی کی مدت تاحیات ہو گی اور وہ شخص عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ مگر اب ایک نے استحکام پاکستان پارٹی بنا لی اور دوسرے اب عام انتخابات میں نہ صرف حصہ لیں گے بلکہ وزیر اعظم بننے کی تیاری میں بھی ہیں۔
اب معاملہ اس وقت صرف پی ٹی آئی جماعت کا ہے جن کے امیدواران کے کاغذات نامزدگی بڑی تعداد میں مسترد ہوئے، حتیٰ کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے کاغذات میانوالی حلقے سے مسترد ہو گئے اب کیوں ہوئے، ذرائع سے معلوم ہوا کہ تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کو دھمکایا گیا اور پھر اُنہیں حراست میں لے لیا گیا۔ اب ان تمام حالات و واقعات کو بغور جائزہ لیا جائے تو صورتحال یہی نوید سُنا رہی ہے کہ ایک جماعت کو یوں دبایا جائے تو یہ جمہوریت کی بدترین مثال ہو گی۔ جس طرح ماضی میں پاناما سے اقامہ تک معاملہ جا پہنچا اور پھر العزیزیہ اور ایون فیلڈ کیس چلا عدالت نے حکم جاری کیا کہ نواز شریف 24 اکتوبر 2023 عدالت پیش ہوں جبکہ نواز شریف ابھی پاکستان بھی نہیں پہنچے تھے۔ قبل از وقت ضمانت اور سزا بھی معطل کی گئی جبکہ 24 دسمبر 2018 کو احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نوازشریف کو العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سُنائی تھی۔ ان تمام پہلوئوں کو ڈسکس کرتے ہوئے وقت اور ہوائوں کا رُخ دیکھتے ہوئے ایک ٹاک شو میں، میں نے کہا تھا کہ نواز شریف کو کلین چٹ مل جائے گی اور پھر ایسا ہی ہوا کیونکہ نواز شریف پاکستان سے باہر رہ کر زیادہ خطرناک تھے۔ ملک سے باہر رہ کر بین الاقوامی سطح پہ وہ اچھی لابنگ کر آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں آتے ہی ان تمام کیسز سے اُن کو کلین چٹ مل گئی۔
اب بانی پی ٹی آئی پی پر 121 مقدمات ہیں جس میں توشہ خانہ کیس اور 190 ملین پاؤنڈ سکینڈل سر فہرست ہیں۔ چلئے ایک لمحے کے لیے ہم ایک پاکستانی ہو کر غیر جانبدار ہو کر مان لیتے ہیںکہ یہ ایک احتساب کا عمل ہے مگر احتساب کا عمل تو سب کے لیے ایک سا ہونا چاہئے کیونکہ آرٹیکل 62 ون ایف سب پہ لاگو ہوتا ہے۔ آپ سب کو شاید ایک فقرہ یاد ہو کہ ایک بار جب احتساب کا عمل (ن) لیگ کے لیے شروع کیا گیا تھا تو مریم نواز نے ہی میڈیا ٹاک میں کہا تھا کہ میری پراپرٹی زمین پہ تو کیا چاند پہ بھی نہیں ہے مگر اب جب کا غذات نامزدگی جمع کرائے گئے جس میں 84 کروڑ 25 لاکھ 84 ہزار روپے سے زائد کی اراضی ظاہر کی، 2 کروڑ 89 لاکھ کی وہ اپنے بھائی کی مقروض نکلیں۔ 1500 کنال سے زائد اراضی بھی چاند پہ نہیں زمین پہ ہی نکلی، اور تو اور ایک سال کے دوران 40 لاکھ روپے سے زائد اثاثوں میں بھی اضافہ ہوا، یہ اضافہ ایک اندازے سے ہی بتایا گیا ہے، اس کی بھی تحقیقات کی جائیں تو یہ رقم بھی تجاوز کر جائے گی۔
پاکستان میں ہمیشہ سے ایک ہی مسئلہ چلا آ رہا ہے کہ احتساب بھی کبھی غیر جانبدار ہو کر نہیں کیا گیا جو طاقت میں آیا اُس نے کمزور کو ہمیشہ دبایا۔ احتساب کا تقاضا تو یہ کہتا ہے کہ اگر آرٹیکل 62 ون ایف اگر تمام سیاستدانوں پہ لاگو کیا جائے تو کوئی بھی اس پہ پورا نہ اُترے گا۔ اب مریم نواز کے اثاثوں پہ بھی ہمارے ادارے ایک تحقیقاتی کمیٹی بٹھائیں تا کہ قوم کو بھی علم ہو کہ آخر وہ کونسا بزنس کر رہی ہیں اور اُن کے اثاثوں کی اندرونی کہانی کیا ہے، کیونکہ اگر سیاسی ماحول کا جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ اگر (ن) لیگ اگر اقتدار میں آتی ہے تو مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہی بنایا جائے گا کیونکہ ذرائع کے مطابق (ن) لیگ کے اہم رہنماؤں کا فیصلہ ہے کہ ان کو تجربہ ہو جائے تاکہ آنے والے وقت کے لیے اُنہیں وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔
اب اتنے اہم عہدوں پہ فائز کرنے سے پہلے ان کا منی ٹرائل ہونا ضروری ہے کیونکہ ہمارے ملک کا ہی دستور ہے کہ اقتدار میں جب یہ لوگ آتے ہیں تو تمام ادارے ان کے ماتحت ہو جاتے ہیں پھر ان پہ ہاتھ ڈالنا تو دور کی بات ان کے سامنے احتساب کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا، اور پھر احتساب کی کھینچا تانی یونہی قائم و دائم رہے گی ہمیشہ کی طرح اپنے کیے کالے کارنامے دوسروں پہ دھر دئیے جاتے ہیں۔ سیاسی اور انتقامی جنگ ابھی جاری ہے الیکشن کا وقت نہایت قریب ہے اور آج شہباز شریف نے اپنی پارٹی اراکین کو کہا کہ وہ عوام کو الیکشن کے حوالے سے ایجنڈا دیں جبکہ الیکشن کے لیے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے قبل از وقت ایجنڈا عوام کے سامنے رکھنا چاہیے کہ آپ عوام سے کس ایجنڈے پہ ووٹ لینے گئے۔ جبکہ کسی سیاسی جماعت نے ابھی تک کھل کے اپنا پارٹی منشور عوام کے سامنے پیش نہیں کیا، نہ ہی کوئی خارجہ پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات پہ زیر غور کیا کہ سر اُٹھاتی دہشت گردی پہ کیسے قابو پانا ہے؟ مہنگائی کو کیسے کنٹرول کرنا ہے؟ جغرافیائی صورتحال کو کیسے لے کر چلنا ہے؟ افغانستان کے ساتھ تعلقات کیسے لے کر چلنا ہیں؟ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ کیسے حل کرنا ہے؟
آئی ایم ایف کے پروگرام کو کس طرح لے کر چلنا ہے؟ کیونکہ ملک کو جس نہج پہ لا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ملک آئی ایم ایف کے بغیر چلانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ سب حکمرانوں کے زیادہ تر اثاثے ملک سے باہر ہے اور ملک میں انویسٹمنٹ لانا بہت مشکل ہو جاتی ہے اس صورتحال پہ ٹی ایل پی جماعت ہے جس نے عوام میں جانے سے پہلے نیا پارٹی پرچم اور 25 نکاتی انتخابی منشور بھی پیش کر دیا جس کو جماعت کو ہمیشہ مسائل سے دوچار رکھا گیا اور دبایا جاتا رہا مگر آج بھی وہ عوامی مسائل کو محسوس کرتے ہوئے پارٹی فیصلے کر رہی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کو الیکشن میں شمولیت کے لیے یونہی مسائل کا سامنا رہا اور وہ اپنے نشان سے الیکشن نہ لڑ سکی تو اس الیکشن کے ہو جانے کے بعد بھی مزید پچیدگیاں جنم لیں گی۔ اسی طرح چند روز پہلے امریکی جریدے وال سٹریٹ جنرل میں بھی ایک مضمون شائع ہوا جس میں واشگاف بات کہی گئی کہ اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ جاتے ہیں تو یہ ملک پاکستان کے لیے بہتر نہ ہو گا۔
اب اس کے اہم فیکٹس دو ہیں، ایک جو عمران خان نے امریکہ کو اپنی تقاریر میں للکارا، دوسرا اپنی تقاریر میں چیف آف آرمی سٹاف کو پبلک میں نشانہ بنایا۔ اب آرمی پاکستان کا مدر اور منظم ادارہ ہے جس کے دم سے پاکستان محفوظ ہے لہٰذا ان دو باتوں کی وجہ سے اور عمران خان کی ہٹ دھرمی نے آج سیاسی عدم استحکام کا ماحول قائم کیا ہوا ہے۔ آج بھی عمران خان نے فرد جرم عائد کیے جانے پہ شدید غصہ میں آ کر الیکشن کمیشن ممبران کو سنگین دھمکی لگا دی کہ میں اقتدار میں آ کر تم پہ آرٹیکل 6 لگائوں گا۔ آخر کب تک یونہی انتقام کی سیاست ہی جمہوریت کے روپ میں پنپتی رہے گی اب تمام سیاسی جماعتیں جو برانڈ کا روپ دھار چُکی ہیں اُنہیں سیاسی انتقام سے نکل کر ملک و قوم کی بہتری کی جانب سوچنا چاہئے۔
تبصرے بند ہیں.