اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے جنسی سکینڈل کی بازگشت ابھی تھمی نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چند ماہ قبل ہی اس یونیورسٹی کے اہم عہدے داروں سے منشیات اور طالبات کی جنسی ویڈیوز برآمد ہونے کی باقاعدہ ایف آئی آرز درج ہوئی تھیں اور ملک بھر کے میڈیا پر اس کی خبریں نشر ہوئیں، پروگرام کیے گئے اور ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا۔ ظاہری بات ہے کہ باقاعدہ مقدمات درج ہونے اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی خبر اتنی مصدقہ ہوتی ہے کہ ہر ذی شعور شخص اس پر پریشان ہو گیا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں یہ کیسا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ سرکاری جامعات میں اساتذہ اور عہدے داروں کی سرپرستی میں ہونے والے ایسے گھناؤنے کام کی خبر نے جہاں ہنگامہ برپا کر دیا وہیں جانے کتنی طالبات کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی، کئی بچیوں کے رشتے ٹوٹ گئے اور کتنی ہی بچیاں اپنے گھر والوں کو وضاحتیں دیتے دیتے ہلکان ہوتی رہیں۔ یہ سکینڈل صرف چند افراد کا نہیں تھا بلکہ پانچ ہزار سے زائد طالبات کے جنسی سکینڈل کی خبر نے کئی گھروں کا چین چھین لیا تھا۔
اب اس کہانی کا ڈراپ سین ہوا چاہتا ہے۔ بااثر مافیا نے ایک شخص کو راستے سے ہٹانے کے لیے تاریخی یونیورسٹی کی ساکھ اور سیکڑوں اساتذہ سمیت ہزاروں طلبا کی عزت بھی برباد کر دی تھی۔ اس پر جوڈیشل انکوائری شروع ہوئی۔ اس انکوائری میں کئی بڑے انکشاف ہوئے۔ پولیس نے جو مقدمات درج کیے تھے ان کے مطابق پکڑے جانے والے عہدے داروں سے منشیات برآمد ہوئی اور ان کے ساتھ خواتین بھی تھیں۔ انکوائری میں معلوم ہوا کہ ایسا کچھ نہیں تھا، منشیات نکلی اور نہ ہی خواتین کا ہونا ثابت ہوا، یہاں تک کہ جس موبائل کا کہا جا رہا تھا کہ اس میں ہزاروں طالبات کی ویڈیوز تھیں اس موبائل سے کوئی ویڈیو بھی برآمد نہیں ہوئی۔ انکوائری میں کہا گیا کہ یہ جنسی ہراسمنٹ اور منشیات کا معاملہ نہیں تھا۔ ٹربیونل جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے اس معاملے کو اچھالنے والے ایک بڑے چینل کے مشہور اینکر اور ایک یوٹیوبر سے بھی تفتیش کی سفارش کر دی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بغیر تصدیق کے غیر ذمہ دارانہ طور پر ویڈیوز بنا کر وائرل کیں۔ اسی طرح ٹربیونل نے ڈی پی او بہاولپور سید محمد عباس، ڈی ایس پی سی آئی اے بہاولپور جمشید اور سب انسپکٹر ایس ایچ او پولیس سٹیشن دراوڑ بہاولپور رمضان سے بھی تفتیش کی سفارش کی ہے۔ اب نگران کابینہ نے اس سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ پیش ہونے کے بعد تین وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا تھا کہ اس حد تک پراپیگنڈا کیا گیا۔ اس کا جواب جاننے کے لیے ہمیں صورت حال کا جائزہ لینا پڑے گا۔ جب یہ سکینڈل بنا کر اسے منظم انداز میں پھیلایا گیا تب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب تھے۔ ان کی وائس چانسلر کی مدت پوری ہو رہی تھی اور ایک مخصوص مافیا کو ڈر تھا کہ ان کے کنٹریکٹ میں توسیع کر دی جائے گی۔ اس توسیع کو روکنے کے لیے یہ ساری منصوبہ بندی کی گئی۔ یہ منصوبہ اس حد تک کامیاب رہا کہ اس وقت کے وی سی اطہر محبوب اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد گھر چلے گئے۔ جب اطہر محبوب وی سی بنے تب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے فیکلٹی مبران کی تعداد 400 سے 600 کے درمیان تھی۔ اس شخص کے دور میں یہ تعداد 1800 سے بھی زیادہ ہو گئی جن میں 700 سے 800 کے درمیان پروفیسرز پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر بھی ہیں۔ اسی طرح پہلے یونیورسٹی میں 7 شعبے تھے جنہیں 16 تک بڑھا دیا گیا اور 16 ڈین تعینات کیے گئے۔ فیکلٹی اور سہولیات کو بہتر بنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یونیورسٹی میں طلبا کی تعداد 60 ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ وہ کام تھا جس کی وجہ سے نجی کالجز کو نقصان ہوا اور وہ پورا مافیا اس وی سی کے خلاف ہو گیا۔ اسی طرح ایک مافیا یونیورسٹی کے اندر بھی تھا جسے یہ سب قبول نہیں تھا۔ اس اندرونی و بیرونی مافیا نے وی سی کی مدت میں توسیع کے خوف سے آپس میں مل کر ایسی گھناؤنی سازش تیار کی کہ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے نہ تو یہ دیکھا کہ اس کام سے ان کے اپنے ادارے کی ساکھ پر کیا اثر پڑے گا اور نہ ہی ملازمین اور طلبا کے ساتھ ساتھ ہزاروں گھرانوں کی عزت کا خیال رکھا۔ یہ سازش اتنی خوفناک تھی کہ ایک معروف سیاست دان کے بیٹے کا سیاسی کیریئر بھی بُری طرح متاثر ہوا۔ سازشی اس حد تک تو کامیاب رہے کہ اطہر محبوب اپنی مدت پوری ہونے کے بعد یونیورسٹی سے رخصت ہو گئے لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ جوڈیشل انکوائری میں حقائق سامنے آ گئے۔ ڈی پی او سمیت پولیس افسران بھی مشکوک ہو گئے اور سینئر اینکر پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ جس طرح بہاولپور یونیورسٹی کے سابق وی سی اطہر محبوب کو سازشیوں کا سامنا کرنا پڑا ایسے ہی ہر ادارے میںکام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ کام چور، نااہل اور مافیا کی سرپرستی حاصل کرنے والے یہی ایک کام دل لگا کر کرتے ہیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ایسے لوگ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور عموماً کام کرنے والوں کو ہی اداروں سے جانا پڑتا ہے۔ پاکستان کی تباہی میں ایک بڑا ہاتھ ایسے مافیاز اور سازشی ذہنیت کے حامل افراد کا بھی ہے۔ جوڈیشل انکوائری اور ٹربیونل رپورٹ کے بعد ضروری ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے جنسی سکینڈل کے مرکزی ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں سزا دی جائے اور سرکاری سطح پر باقاعدہ میڈیا کمپین لانچ کر کے اس داغ کو دھویا جائے جو مفاد پرستوں کی وجہ سے یونیورسٹی کے ماتھے پر لگا ہے۔ یہ معاملہ صرف یونیورسٹی کا ہی نہیں بلکہ ان سیکڑوں بچیوں کا بھی ہے جنہوں نے وہاں تعلیم حاصل کی یا اس دور میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ ان طالبات کے بوڑھے والدین اور غیرت مند بھائیوں کو بھی انصاف درکار ہے کیونکہ جو کیچڑ اچھالا گیا اس نے براہ راست انہیں متاثر کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاست ان سب کو انصاف مہیا کر سکے گی جو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا مقدمہ بھی درج نہ کرا پائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ سابق وی سی اطہر محبوب کی مدت ملازمت میں توسیع ہونا تھی یا نہیں لیکن ان حالات اور انکوائری رپورٹ کے بعد ضروری ہے کہ انہیں دوبارہ عزت و احترام کے ساتھ اسی یونیورسٹی کا وی سی بنا کر مافیا کو بھرپور جواب دیا جائے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.